میں ہوتا ہے۔
اس کی پہلی صورت کی وضاحت یہ ہے کہ حدیث کسی راوی کے ساتھ مشہور ہو تو اس کی جگہ ندرت وغیرہ بیان کرنے کے لیے اسی کے طبقہ سے دوسرا راوی رکھ دیا جائے۔ ان رواۃ میں جو یہ کام کرتے ہیں حماد بن عمر ونصیبی ہے جس کی نسبت نصیبین شہر کی طرف ہے، امام بخاری نے فرمایا یہ منکر الحدیث ہے۔
اس کی مثالوں میں سے یہ حدیث ہے:
((اِذَا لَقِیْتُمْ الْمُشْرِکِیْنَ فِی الْطَّرِیْقِ فَلَا تَبْدَؤُہُمْ بِالسَّلامِ))
’’جب تم کسی راستے میں مشرکین کو ملو تو ان سے سلام میں ابتداء نہ کرو۔‘‘
سند کے راوی حماد بن عمرو نے اسے الٹ دیا تو اسے اعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی سند سے مرفوعاً بیان کیا حالانکہ یہ عن سہیل بن ابی صالح عن ابیہ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔
سند میں قلب کی شکل میں سے وہ تبدیلی بھی جو رواۃ کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کرنے واقع ہو۔ مثلاً مرہ بن کعب اور کعب بن مرہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا نام دوسرے کے والد کے نام کی طرح ہے۔
متن میں قلب کی مثال وہ ہے جسے امام مسلم نے سات آدمیوں والی حدیث سے بیان کیا جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن سایہ نصیب کرے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔
اس حدیث میں ہے:
((وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمُ یَمِیْنُہُ مَا اَنْفَقَتْ شِمَالُہُ))
’’ایک وہ آدمی ہے جس نے کوئی صدقہ کیا اور اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے دائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہوا جو اس کے بائیں ہاتھ نے خرچ کیا۔‘‘
|