Maktaba Wahhabi

51 - 169
العنایۃ: ....مصدر باب عَنٰی یعنی بروزن ضرب بمعنی مشغول کرنا، فکر مند کرنا۔ ہفت اقسام سے ناقص یائی ہے۔ اِذًا: ....بمعنی تب، تب تو، ایسا ہے تو، یہ کلام سابق کا جواب اور جزاء ہوتا ہے اور اس کو ’’اِذن‘‘ کی طرح بھی لکھ لیتے ہیں۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے تو اسے نصب دیتا ہے بشرطیکہ ابتدائے کلام میں ہو اور اس کے اور فعل کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ ٭٭....٭٭ علوم حدیث کی انواع میں سے جن پر توجہ و اہتمام کرنا مستحسن ہے ایک، ثقہ راویوں کا دیگر رواۃ کے مقابلے میں اضافی بات بیان کرنا ہے۔ زیادتی جس طرح متن میں واقع ہوتی ہے اسی طرح سند میں بھی موقوف کو مرفوع اور منقطع کو متصل وغیرہ بیان کرنے میں ہوتی ہے۔ حافظ ابن الصلاح نے زیادتی کی تین اقسام بنائی ہیں اور انہیں امام نووی وابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ نے پسند فرمایا ہے۔ وہ اقسام حسب ذیل ہیں: ۱۔ وہ بات جسے ثقہ راوی اضافی طور پر بیان کرے درآں حالیکہ دیگر ثقات یا اس سے زیادہ ثقہ کی روایت کردہ بات کے منافی ہے۔ ایسے اضافہ کا حکم مردود ہوتا ہے۔ ثقات یا اوثق کی روایت کا نام محفوظ اور ثقہ کی روایت کا نام شاذ رکھا گیا ہے۔ خبر محفوظ: اس وقت وہ ہے جسے ثقات یا اوثق بیان کرے درآں حالیکہ اس روایت کے منافی ہو جو ثقہ نے بیان کی۔ خبر شاذ: وہ ہے جسے ثقہ راوی اس حال میں بیان کرے کہ ثقات یا اس سے زیادہ ثقہ نے جو روایت کی اس کے مخالف ہو۔ سند میں اس کی مثال ہے جسے امام ترمذی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مرفوع ہونے کی حالت میں روایت کیا ہے: ’’اَلْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدٌ اِلاَّ الْمَقْبُرَۃَ
Flag Counter