نسبی کی چار اقسام بنتی ہیں:
(۱) موافقت:
راوی کا کسی مصنف مثلاًامام بخاری کے استاد تک ان کی سند کے علاوہ دوسری کے ساتھ پہنچنا جو مصنف کی سند کی بنسبت عالی ہو۔
حافظ ابن حجر نے اس کی مثال بیان کی کہ امام بخاری نے ایک حدیث قتیبہ عن مالک لی، مثال کے طور پر آگے فرمایا: اگر ہم اسے امام بخاری کی سند سے بیان کریں تو ہمارے اور قتیبہ کے مابین آٹھ واسطے ہوں گے۔ اور اگر اسے ہی ہم ابوالعباس السراج عن قتیبہ کی سند سے روایت کریں تو ہمارے اور قتیبہ کے درمیان سات واسطے ہوں گے۔ چنانچہ امام بخاری کے ساتھ ان کے شیخ قتیبہ میں ہمیں عالی سند کے ساتھ موافقت حاصل ہوگی۔
(۲) بدل:
(اس کا نام ابدال بھی رکھا گیا ہے) کسی مصنف کے شیخ کے شیخ تک اس کی سند کے علاوہ کسی دوسری سند سے پہنچنا جو بنسبت اس کی سند کے عالی ہو۔
اس کی مثال وہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے جس کی مذکورہ مثال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی۔ یعنی گویا یہی سند بعینہٖ ہمارے لیے وقوع پذیر ہو۔ امام بخاری کے علاوہ دوسری سند سے قعنبی عن مالک تک تو امام قعنبی اس سند میں امام بخاری کے شیخ جناب قتیبہ سے بدل ہیں۔
موافقت اور بدل میں سے ہر ایک کا اعتبار عموماً اس وقت ہوتا ہے جب دونوں علو پر مشتمل ہوں البتہ اس کے بغیر بھی ان دونوں کا استعمال اور وقوع ہوتا ہے۔
(۳) مساوات:
راوی کی سند کے رواۃ کی تعداد کسی ایک مصنف کی سند کی تعداد سے برابر ہو تو اسے مساوات کہتے ہیں۔
اس کی مثال وہ روایات ہیں جو حافظ ابن حجر کے لیے وقوع پذیر ہوئیں۔ ان میں سے
|