جَھَالَۃٌ‘‘ اس میں جہالت ہے۔ یا ’’سَییِّئُ الْحِفْظِ‘‘ فلاں برے حافظے والا ہے۔ یا ’’لَیِّنُ الْحَدِیْثِ‘‘ اس کی روایات میں کمزوری ہے۔ یا ’’فِیْہِ لَیِّنٌ‘‘ اس راوی میں کمزوری ہے۔
اس مرتبہ پر محدثین کا کہنا ہے: ’’فُلَانٌ تَکَلَّمُوْا فِیْہِ‘‘ فلاں میں محدثین نے کلام کی ہے۔ امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین کے نزدیک ’’فُلَانٌ فِیْہِ نَظْرٌ‘‘ فلاں میں نظر ہے۔ یا ’’فُلَانٌ سَکَتُوْا عَنْہُ‘‘ کہنا بھی اسی درجہ میں ہے (کہ فلاں سے محدثین نے سکوت اختیار کیا ہے)۔
حافظ عراقی نے شرح الالفیہ میں کہا: ’’فُلَانٌ فِیْہِ نَظْرٌ‘‘ یا ’’فُلَانٌ سَکَتُوْا عَنْہُ‘‘ یہ دونوں عبارتیں امام بخاری ان رواۃ کے متعلق کہتے ہیں جن کی روایات کو محدثین نے ترک کر دیا ہے۔
علامہ سخاوی نے شرح الالفیہ میں کہا: ان مراتب والوں میں حکم یہ ہے کہ پہلے چاروں میں سے کسی کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی اور نہ ہی اس کے ساتھ استشہاد لیا جاتا ہے اور نہ ہی اعتبار کے لیے اسے پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ رواۃ جن کا پانچویں اور چھٹے مرتبہ میں تذکرہ ہوا ان کی روایت کا اعتبار کیا جاتا ہے یعنی اعتبار کے لیے لی جائے گی۔
٭٭٭
|