Maktaba Wahhabi

151 - 169
امام ابن معین کے علاوہ دیگر محدثین کے نزدیک ’’لَیْسَ بِشَیئٍ‘‘ کہنا بھی اسی درجہ میں ہے۔ معنی فلاں راوی کی کوئی حیثیت نہیں۔ امام سخاوی نے شرح الالفیہ میں لکھا کہ جب ابن القطان نے کہا: ابن معین جب کسی راوی کے متعلق ’’لَیْسَ بِشَیئٍ‘‘ کہے تو ان کی مراد یہ ہے کہ اس راوی کی احادیث قلیل ہیں یعنی قلیل الروایہ ہے۔ اسی طرح کی بات مقدمہ فتح الباری میں بھی ہے۔ خامس: مثلاً کہنا: ’’فُلَانٌ لَا یُحْتَجُّ بِہِ‘‘ فلاں راوی سے دلیل نہیں پکڑی جاتی۔ یا ’’ضَعَّفُوْہُ‘‘ اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ یا ’’مُضْطَرَبُ الْحَدِیْثِ‘‘ وہ مضطرب الحدیث ہے۔ یا ’’ضَعِیْفٌ‘‘ وہ ضعیف ہے۔ یا ’’لَہُ مَا یُنْکَرُ‘‘ اس کے پاس ایسی روایات ہیں جن کا انکار کیا گیا ہے۔ یا ’’لَہُ مَنَاکِیْرُ‘‘ اس کے لیے منکر روایات ہیں۔ یا ’’مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ‘‘ فلاں منکر الحدیث ہے۔ یہ آخری اصطلاح امام بخاری کے علاوہ دیگر محدثین کے نزدیک ہے۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابان بن جبلہ کوفی اور سلیمان بن داؤد یمامی کے تراجم کے تحت کہا کہ بلاشبہ امام بخاری نے فرمایا: ہر وہ راوی جس کے بارے میں منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت لینا حلال نہیں۔ سادس: یہ سب سے کمزور ترین اور نرم ہے۔ مثلاً کہنا: ’’فُلَانٌ فِیْہِ مَقَالٌ‘‘ فلاں راوی میں کلام ہے۔ یا ’’اَدْنٰی مَقَالٍ‘‘ فلاں میں معمولی نقد ہے۔ یا ’’یُنْکَرُ مَرَّۃً وَیُعْرَفُ اُخْرٰی‘‘ اس کی روایات کو کبھی منکر اور کبھی معروف کہا جاتا ہے۔ یا ’’لَیْسَ بِالْقَوِیِّ‘‘ وہ قوی نہیں۔ یا ’’لَیْسَ بِالْمَتِیْنِ‘‘ وہ مضبوط راوی نہیں۔ یا ’’لَیْسَ بِحُجَّۃٍ‘‘ فلاں قابل حجت نہیں۔ یا ’’لَیْسَ بِعُمْدَۃٍ‘‘ وہ معتبر نہیں۔ یا ’’لَیْسَ بِالْحَافِظِ‘‘ فلاں حافظ نہیں۔ یا ’’فِیْہِ شَیٌٔ‘‘ اس میں کچھ نقص ہے۔ یا ’’فِیْہِ
Flag Counter