Maktaba Wahhabi

147 - 169
الثانی: مثلاً: ’’فُلَانٌ لَا یُسْأَلُ عَنْہُ‘‘ فلاں راوی کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا یعنی اس کی ثقاہت کے کیا ہی کہنے۔ ثالث: توثیق پر دلالت کرنے والی صفات میں سے کسی صفت کے ساتھ تاکید لائی جائے مثلاً ’’ثِقَۃٌ ثِقَۃٌ‘‘ یا ’’ثَبَتٌ حُجَّۃٌ‘‘ یا ’’ثِقَۃٌ ضَابِطٌ‘‘ وغیرہ۔ سب سے زیادہ تاکید جو اس میں پائی گئی وہ ابن عیینہ کا یہ قول ہے، ہمیں عمرو بن دینار نے حدیث بیان کی اور وہ ثقہ ثقہ ثقہ....ہے۔ یہ انہوں نے نو مرتبہ کہا۔ رابع: بغیر تاکید کے توثیق پر دلالت کرنے والے لفظ سے اس کو تعبیر کیا گیا ہو مثلاً ’’ثِقَۃٌ‘‘ یا ’’ثَبْتٌ‘‘ یا ’’حُجَّۃٌ‘‘ وغیرہ۔ یاد رکھیں ثبت سے زیادہ قوی الحجہ ہے۔ خامس: مثلاً کہنا: ’’فُلَانٌ صَدُوْقٌ‘‘ یا ’’مَأمُوْنٌ‘‘۔ امام ابن معین کے علاوہ دیگر محدثین کے نزدیک ’’لَیْسَ بِہِ بَأسٌ‘‘ یا ’’لَا بَأسَ بِہِ‘‘ بھی اسی درجہ پر ہے۔ جناب بدر بن جماعہ نے اپنی کتاب ’’مختصر‘‘ میں کہا ہے کہ امام ابن معین کا کہنا ہے جب میں کسی راوی کے متعلق ’’لَا بَأسَ بِہِ‘‘ یا ’’لَیْسَ بِہِ بَأسٌ‘‘ کہوں تو وہ ثقہ ہوتا ہے (یعنی درجہ رابعہ کا راوی ہوتا ہے)۔ یہ ابن معین کا اپنی طرف سے خاص اصطلاح کی وضاحت کرنا ہے۔ اسی طرح کی بات مقدمہ ابن صلاح میں بھی ہے۔ سادس: جو تجریح کے مراتب کے قریب ہونے کا احساس دلائے اور یہ سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے، مثلاً کہنا: ’’فُلَانٌ لَیْسَ بِبَعِیْدٍ عَنِ الصَّوَابِ‘‘ (فلاں درستگی سے دور نہیں۔) یا ’’شَیْخٌ‘‘ یا ’’یُعْتَبَرُ بِہِ‘‘ (اس کا اعتبار کیا گیا ہے۔) یا ’’شَیْخٌ وَسْطٌ‘‘ (متوسط شیخ ہے۔) یا ’’رَوَی
Flag Counter