استاذکے درمیان کس قدر گہرا تعلق ہونا چاہئے اس پر ایک نصیحت ہے اس لئے اس کو اس کتاب میں بھی شامل کیا جا رہا ہے ۔الحسینوی)
حافظ مرحوم کی حیات و خدمات پر ان کے علمی استحقاق کے مطابق جو بھٹی صاحب نے دبستان حدیث میں صفحہ ۵۳۸تا صفحہ ۵۵۳ اور محترم حافظ احمد شاکر صاحب نے ۲ مارچ ۲۰۱۲ء الاعتصام کے اداریہ میں اور فاضل بھائی عبدالجبار سلفی صاحب نے محدث مارچ ۲۰۱۲ء میں جو کچھ رقم کر دیا ہے اب مزید لکھنے کی ضرورت نہیں البتہ انفرادی ۔مشاہدات کا قرض ان کے اساتذہ ،ہم عصرعلماء اور تلامذہ پر باقی ہے جسطرح محترم قاری محمد طیب بھٹوی صاحب نے اپنا ذاتی مشاہدہ ایک قسط میں ہفت روزہ اہلحدیث مورخہ ۲۳ مارچ ۲۰۱۲ء ص۱۷پر ھدیہ قارئین کیا ہے اللہ ان کو جزائے خیر دے راقم کا تعلق بھی حافظ صاحب کے تلامذہ سے ہے ۱۹۸۳ء تا ۱۹۸۵ء عرصہ تین سال حافظ صاحب کے زیر سایہ استفادہ کرنیکا شرف حاصل ہے کتب فنون کے علاوہ صحیح بخاری جز ثانی سبقا حافظ صاحب سے پڑھی ہے اس تحریر کو میں نے دوحصوں میں تحریر کیا ہے اولا ذاتی مشاہدات ثانیا دارالحدیث راجووال میں درس بخاری ۔
(۱)دوران تعلیم حافظ صاحب مرحوم نے اخلاق حسنہ اور شفقت و محبت کے ایسے نقوش سے نوازا جو تا زیست ہمیں فراموش نہیں ہو سکتے راقم کو حافظ صاحب سے اس قدر عقیدت تھی میں نے دل میں فیصلہ کر لیا اگر اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد پہلے بیٹا عطا کیا تو اس کا نام عبدالمنان رکھوں گا یہ ایک نیک فال تھی تاکہ اللہ کریم اس کو عالم فاضل بنائے اور محبوب استاذ کی یاد تازہ رہے جب اللہ نے بیٹا عطاکیا تو میں نے خوشی سے ابتدائی استاذ محترم مولانا یوسف صاحب حفظہ اللہ کو بتایا اور ساتھ اپنے نام کا فیصلہ بھی سنایا انھوں نے شفقت سے پیار دے کر فرمایا تو نے بہت اچھے نام کا انتخاب کیا ہے ساتھ ہی مجھے سیرۃ عبدالمنان
|