لہذا اچھے طالب علم کی یہ صفات ہوتی ہیں کہ وہ علمی نکات کو اپنی کاپی پر نوٹ کرتا ہے ۔اس سے لکھنے کا انداز بھی آتا ہے ،بعد میں ایسے طالب علم کا مصنف بننا مشکل نہیں ہوتا ۔
کلاس میں یہ لکھا ہوا بعد میں مذاکرے میں بھی کار آمد ثابت ہوگا۔
لکھنے والا اور نہ لکھنے والا علمی پختگی اور وسعت علم میں کبھی برا بر نہیں ہوسکتے۔ یہ بات تو مشہور ہے کہ :’’ قیّدوا ا لعلم با لکتابۃ ‘‘ علم کو لکھنے سے قید کرو۔مدرس کو چاہیے کہ وہ طلبا کو کلاس میں لکھنے کی ترغیب دیتا رہے پھر آہستہ آہستہ طلباء میں لکھنے کی عادت پختہ ہو جائے گی ،ان شاء اللہ۔
یہ تو تجربہ بھی ہے کہ زمانہ طالب علمی میں لکھی ہوئی چیز زمانہ تدریس میں نہایت معاون ثابت ہوتی ہے اور تصنیف میں بھی اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
اپنے اساتذہ سے دعائیں لینا:
خوش قسمت ہے وہ طالب علم جو اپنے اساتذہ سے دعائیں لیتا ہے طالب علم کی کامیابی میں ایک استاد کی دعا بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جب استاد خلوص نیت سے دعا کردے تو وہ دعا۔۔۔۔۔یہ بھی مشکل ہے کے استاد سے دعا کیسے لی جائے ؟
طالب علم کے لئے درج ذیل چیزوں کو اپنا نا ضروری ہے پھر ممکن ہے کہ ایک استاد اپنے طالب علم کے لئے دل سے دعا کرے ۔
استاد سے دعائیں لینا کیسے ممکن ہے ؟
۱۔ اپنے آپ کو ہر عیب سے بچانے والا دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کو برے کاموں سے بچانے والا(باعمل)۔
اگر ایک طالب علم اپنے آپ کو برے لڑکو ں کی صحبت سے بچائے ، کس طرح کے
|