نے دورانِ تعلیم اُن سے پوچھا : استاد محترم ! مدرسہ کے حوالے سے کوئی نصیحت فرمائیے ،کہنے لگے کہ چھوٹے بچوں کو کبھی اپنے پاس نہ بٹھانا اور نہ خود ان میں جا کر بیٹھنا ، نہ ہی کسی لڑکے کو ادھار دینا ۔‘‘
(محدث : ۳۱۷ جنوری ۲۰۰۸ صفحہ: ۷۱)
مولانا عبداللہ حسین روپڑی رحمہ اللہ آف کراچی کی نصیحتیں :
مجھے حافظ عبدالحفیط روپڑی حفظہ اللہ سلفیہ ٹاون آف کراچی نے بتایا کہ ہمارے والد محترم نے مجھے یہ نصیحت کی کہ بیٹا دین پر زندگی گزارنی ہے اس میں سب کچھ ہے اسی بہانے اللہ تعالیٰ دنیا بھی دے گا ان شاء اللہ ۔
اور وفات کے چند دن پہلے تمام بیٹوں کو اکٹھا کرکے کہا کہ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں دین کو ساری زندگی لازم پکڑنا ہے اور کہا کہ نیک والد کی نیکی اولاد کے کام آتی ہے میرے والد محترم کی نیکی میرے کام آئی تھی اور میری نیکی تمہارے کام آئے گی لیکن جب تم نیک ہو گے تب ہی میری نیکی تمہارے کام آئے گی ورنہ کام نہیں آئے گی ۔اس پر والد محترم نے ’’کان ابوھما صالحا ‘‘سے استدلال کیا تھا ۔
نیک بننا، دین سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سب کچھ عطافرمادے گا ورنہ ذلیل ہو جاؤ گے ۔
اور ابو جی نے فرمایا کہ کبھی کبھی شاگرد اپنے استاد سے آگے نکل جاتا ہے جس طرح امام بخاری رحمہ اللہ اپنے اساتذہ سے بڑھ گئے تھے لیکن شاگرد کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس کی انگلی پکڑ کر چلنا کس نے سکھایا تھا ۔سبحان اللہ ۔
حافظ عبدالحفیظ روپڑی حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوجی نے جامعہ رحمانیہ لاہور میں یہی نصیحت تمام طلبا کو کی اس پر قاری یحیی رسول نگری حفظہ اللہ نے فرمایا کہ بہت وزنی نصیحت ہے ۔ مجھے صہیب عبداللہ حسین نے بیان کیا کہ والد محترم اکثر ہمیں کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو ضایع نہیں کرے گا جو نیک ہو گا ۔
|