امام احمد بن مسلم بزاز مینا پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ایک دفعہ میرے لڑکے نے امام اسحاق بن راھویہ کی دعوت کی ان کی غرض یہ تھی کہ ان سے میرے امام قتیبہ کے پاس جانے کے سلسلہ میں مشورہ لیں ،چنانچہ کہنے لگے میرایہ لڑکا امام قتیبہ کی خدمت میں جانے کے لئے مصر ہے آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ اور انھوں نے میرے ساتھ اپنی شفقت اور حجت کا بھی ذکر کیا ،امام اسحاق نے میری طرف دیکھا اور فرمایا یہ میری مجلس میں میرے نزدیک بیٹھتے ہیں اور مجھ سے بہت کچھ سماع کر چکے ہیں ۔‘‘(تذکرۃ الحفاظ: ۲ / ۴۵۰)
مدرسہ کا ماحول:
اگر کسی مدرسے کا ماحول اچھا نہیں ہے تو اس کو نہ چھوڑنا۔
امام عمرو بن علی بن بحر بن کنیز البصری الفلاس فرماتے ہیں :’’ایک دفعہ میں حماد بن زیاد کی مجلس میں حاضر ہوا اور وہیں ایک حسین و جمیل بچہ تھا ،کسی آدمی نے میرے گال پر ہاتھ رکھا میں اس سے بھاگا اور پھر کبھی نہیں گیا ۔‘‘
یہ واقعہ عبرتناک پیغام لئے ہوئے ہے کہ جہاں کا ماحول سازگار نہ ہو وہاں سے کسی اور مدرسے میں چلے جائیں ،تاکہ مستقبل برباد نہ ہو۔
اسا تذہ کی اچھی اچھی صفات:
طلباکا اپنے اساتذہ کی اچھی اچھی صفات کو نہ اپنانا۔
امام احمد بن یونس فرماتے ہیں :’’جب میں امام سفیان ثوری کی مجلس سے واپس آتا تو میں اپنے دل میں اپنی بہترین معلومات کے متعلق سوچتا،جب شریک خدمت میں حاضر ہوتا تو عقل کی باتیں سیکھ کر لوٹتا ،جب ملک بن مفعول کے پاس جاتا تو زبان کی حفاظت کا اہتمام کرتا اور جب منوں بن علی کے حلقہ میں حاضری کا موقع ملتا تو ان کی خوب صورت اور بہترین نماز دیکھ کر مجھے اپنی فکر پڑجاتی۔‘‘ ( تذکرہ الحفاظ : ۱ / ۳۰۴)
|