خلاف سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ منھج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہمارے اکابر کے کردار کا عکاس اور مدارس دینیہ کی اساس اور مقصدکا مظہر ہے ،سرکاری ملازمین پیدا کرنے کے لئے لاکھوں اسکول ہزاروں کالج اور سینکڑوں یونی ورسٹیاں ہیں جن پر کروڑوں بلکہ عربوں روپے خرچ ہورہا ہے ،قوم کا ہر فرد اس دنیوی تعلیم پر اپنی آمدنی کا ایک معتدّ بہ حصہ خرچ کرتا ہے اور حکومت بھی خوب دل کھول کر اس پر قومی خزانہ صرف کرتی ہے اس کے برعکس دینی مدارس حکومت کی امداد سے بالکل محروم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دینی مدارس کیسے افراد تیار کریں ؟
ان مدارس کا دینی مقصد یہ قطعا نہیں ہے کہ یہاں لیکچرار ،پروفیسر پیدا ہوں ۔ڈاکٹر و انجنیر تیار ہوں یا سرکاری مناصب کے اہل افراد یہاں سے فارغ ہوں بلکہ ان مدارس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ یہاں سے قرآن و حدیث کے ماہر پیدا ہوں ۔قابل مدرس ،عمدہ خطیب و داعی پیدا ہوں ،مفسر و فقیہ اور مفتی و محدث تیار ہوں تاکہ اہل دین کی دینی ضروریات پوری ہوں اور دین کے تقاضوں سے عہدہ برآہوا جا سکے اب اگر ان مدارس سے فارغ ہونے والے حضرات بھی لیکچرار و پروفیسر بن جائیں ۔ٹیچر اور کلرک بن جائیں یا کوئی اور سرکاری ملازمتوں میں کھپ جائیں تو ظاہر بات ہے کہ اس طرح ان مدارس کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو جاتاہے ۔
بنا بریں حضرت مولانا رحمہ اللہ مولوی فاضل اور ایف اے ،بی اے وغیرہ ڈگریوں کو مدارس دینیہ سے فراغت حاصل کرنے والوں کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے ۔حضرت مولانا مرحوم کی اس رائے کی اصابت و افادیت اب اور نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے ۔جب کہ نوجوان علما کے لئے اسکولوں کے دروازے چوپٹ کھل گئے ہیں اور مدارس سے فارغ ہونی والی نئی پود زہر کا پیالہ آب حیات سمجھ کر نوسش جام کئے جا رہی ہے ۔اور وہ
|