عطافرماتے ہیں ۔اور اس پر ہمارا ایمان ہے۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ضایع ہونے سے کیسے بچے؟
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :راقم اپنے اسی اپنے خیال کے مطابق فراغت کے بعد کراچی ہی جا کر اپنے مستقبل کا مستقل سلسلہ بنانا چاہتا تھا ،لیکن میں جب بھی حضرت مولانا(عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ)سے اس کا تذکرہ کرتا تو وہ کاروباری لائن اختیار کرنے سے روکتے اور لاہور ہی میں رہ کر علمی کام کرنے کی تلقین فرماتے کچھ کچھ وقفوں سے دو تین مرتبہ راقم نے کراچی منتقل ہونے کا پروگرام بنایالیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ کے وعظ و نصیحت اور تلقین و ترغیب نے ایسا کرنے سے روک دیا بالآخر یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ کارو بار کی بجائے علم و دین ہی خدمت کرنی ہے ،یہ اگر چہ ایثار و قربانی کا راستہ تھا آسائشوں کی بجائے تلخ کامیوں کا راستہ تھا ،پھولوں کی بجائے کانٹوں سے اٹا ہوا راستہ تھا ۔
اور فی الواقع ابتداء نہایت حوصلہ شکن حالات سے نبرد آزما بھی ہونا پڑا ،نہایت قلیل تنخواہ ،آسائشوں سے محروم انفرادی زندگی ،خویش اقارب سے اور ناقدری عالم سی کیفیت ،ان سب پر مستزاد ۔
تاہم چونکہ زندگی کا ایک ہدف متعین اور نصب العین مقرر کرلیا تھااس لئے راہ کی یہ کٹھنائیاں آسان ہو گئیں ۔اور ایک بلند تر مقصد کے لئے ان تمام چیزوں کو براداشت کرنے کا عزم و حوصلہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیا اور راقم اس جادہ مستقیم پر قائم اور گامزن رہا جو ہمارے اکابر اسلاف کا شیوہ رہا ،ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سرکاری امتحان سے کیسے بچے؟
اس دوران بہت سے احباب اور ناصحین مشفقین نے مخلصانہ مشورے دئے کہ
|