Maktaba Wahhabi

164 - 158
الیس منکم رجل رشید ؟ افسوس !علما بھی ایثار و قربانی کا راستہ چھوڑ کر مادی منفعتوں اور لذتوں کو ترجیح دے رہے ہیں ۔دعوت و تبلیغ کی پر خار وادیوں کے مقابلے میں دنیوی مناصب اور بھاری بھر کم تنخواہوں کی طرف دوڑ رہے ہیں اورسادگی اور زہد کی بجائے دنیا کی آسائشوں اور راہتوں کے طالب بن گئے ہیں ،جس کی وجہ سے غزالی ورازی ،ابن تیمیہ وابن قیم وغیرہ تو کجا کوئی داود غزنوی و اسماعیل سلفی کا جانشین بھی پیدا نہیں ہو رہا ۔ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ تک کی جاگہ لینے والا تیار نہیں ہو رہا ۔اور حنیف ندوی و محمد عطاء اللہ حنیف جیسی یگانہ روز گار شخصتیں بھی خواب و خیال معلو ہونے لگی ہیں ۔ دینی مدارس کی زبوں حالی کے اسباب ۱:نوجوان علماء کو ارباب مدارس اور منتظمین مساجد سے یہ شکوہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی کما حقہ قدر نہیں کرتے ۔ان کے ساتھ خاطر خواہ عزت و احترام کا سلوک اور ان سے ان کے منصب ووقار کے مطابق معاملہ نہیں کیا جاتا ۔نتیجتہ وہ بد دل یا بے توقیری کا شکار ہو کر دوسری راہ اپنا لیتے ہیں ،یہ نکتہ نظر اگرچہ بے بنیاد نہیں ہے ۔اوراس لحاظ سے اہل مدارس و مساجد کا رویہ یقیناً نظر ثانی و اصلاح کا محتاج ہے ۔لیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ عزت و ذلت ،انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے ،اس لئے علما و اہل دنیا کا رویہ دیکھ کر بد ظن نہیں ہونا چاہئے بلکہ پورے اخلاص اور بے لوثی سے دین کی خدمت کرتے رہنا چاہئے ،اس کی بدولت وہ بار گاہی الہی میں عزت وتوقیر کے مستحق قرار پاجائیں گے اور عزت و توقیر وہی ہے جو عنداللہ ہو ،عندالناس عزت و توقیر کی کیا اہمیت ہے ؟کچھ بھی نہیں ۔اس لئے علما کو دنیوی جاہ و منصب اور عزت و توقیر کی بجائے اخروی عزت و سرفرازی ہی کو سامنے رکھنا چاہئے ۔دنیا انھیں جو چاہئے کہتی اور سمجھتی رہے لیکن وہ
Flag Counter