ہوتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں یا وہ نماز پڑھ رہے ہوں ۔
(تذکرۃالحفاظ: ۱ / ۲۵۴)
ابو عبید کہتے ہیں : میں نے امام عبد الرحمٰن بن مہدی بصری سے سنا ہے ،فرماتے تھے کہ میں نے کسی استاد کی کوئی ایسی حدیث نہیں چھوڑی جسے بیان کرتے وقت ان کا نام لے کر خدا تعالیٰ سے ان کے حق میں دعا نہ کی ہو۔‘‘ (تذکرہ الحفاظ : ۱ / ۲۵۶)
جن کو بھی اللہ تعالیٰ بڑا مقام دیتا ہے ان سے پوچھ کر دیکھیں کہ آپ نے بڑا مقام کیسے حاصل کیا تو وہ یہی بتائیں گے کہ اللہ کی رحمت و توفیق اور مدد سے پھر اساتذہ کے احترام ، خدمت اور ان کی اور والدین کی دعاؤں کی وجہ سے ۔
احترام کا ایک عجیب و غریب واقعہ:(تعصب کی انتہاء)
ہمیں مولا ناحاجی خالد رحمہ اللہ(مسجد قدس الہ آباد کے پہلے امام اور خطیب اور ۱۸چک نزد بھوئے آصل کی جامع مسجد کے مدرس و خطیب،ڈاکٹر عبدالرحیم ایم بی بی ایس کے والد محترم) نے بتایا کہ استاد مکرم مولانا محمد گوندلوی رحمتہ اللہ نے واقعہ سنایا کہ:’’ کسی دیوبندی مدرسے میں ایک اہلِ حدیث لڑکا پڑھتا تھا وہ اپنے استاد محترم کے جوتے کو اٹھا کر لاتا تھا اور جب وہ واپس جانا چاہتے تو وہی دوبارہ اسی جوتے کو استاد کے لئے اٹھا تا ۔ وہ روزانہ اس طرح کرتا تھا تو ایک دن اس دیوبندی استاد نے دوسرے طالب علموں کو ڈانٹا کہ میرا جوتا وہی اہلِ حدیث طالب علم اٹھاتا ہے تم کیوں نہیں ؟ لڑکوں نے کہا آئندہ ہم اٹھایا کریں گے لیکن پہلے وجہ بیان کرو فرمایا کہ:’’ جو طالب علم استاد کا احترام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نورو عرفان عطا فرماتا ہے اور اس کا سینہ روشن ہو جاتا ہے میں نہیں چاہتا کہ یہ معرفت قلبی غیر مقلد کو حاصل ہو۔۔۔!!!
|