پر بٹھایا ۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ : ۱ / ۸۳ اردو)
بکار سیرینی کہتے ہیں کہ :’’ جب امام ابن عون بصریٰ کے تلا مذہ ان کی مجلس میں حاضر ہوتے تو انتہائی خشوع و خضوع اور بے حد سکوت کا مظاہرہ کرتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ : ۱ / ۱۷۹)
ابرا ہیم بن اشعث کہتے ہیں میں نے امام سفیان بن عینیہ کو نقیل بن ایاز کے ہاتھ چومتے دیکھا ۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ: ۱ / ۲۰۰)
راقم الحروف نے ایک طالب علم کو دیکھا کہ وہ سبق کے بعد شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو بوسہ دے رہا تھا ۔
مجھے شیخ آصف سلفی حفظہ اللہ نے بتایا کہ ہم جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے پوری کلاس مولانا یوسف راجووالوی حفظہ اللہ کی تیمار داری کے لئے آئے تو انھوں نے الوداع کرتے وقت سب طلباء کی پیشانی کابوسہ لیا ۔
قتیبہ بن سعید کہتے ہیں : ایک دفعہ کسی نے امام سفیان بن عینیہ سے کہا یہ( شیخ الاسلام) حسین جعفی(کوفی) آ رہے ہیں یہ سن کر سفیان جلدی سے اٹھے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، مصافحہ کیا اور ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا ۔‘‘ (تذکرۃالحفاظ : ۱ / ۲۶۸)
عبد اللہ بن منان کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مبارک مکہ معظمہ تشریف لائے ۔ میں بھی ان دنوں وہیں پر تھا پھر جب وطن واپس جانے لگے ،تو محدث مکہ امام سفیان بن عینیہ اور فضیل بن عیاض آپ کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر آئے ۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ : ۱ / ۲۲۰) احمد بن منان کہتے ہیں :’’ امام عبد الر حمٰن بن مہدی کی مجلس میں باتیں نہیں ہوتی تھیں کوئی وہاں قلم نہیں بنا سکتا تھا اور نہ ہی کو ئی بلا وجہ کھڑا ہو سکتا تھا ، لوگ اس طرح خاموش
|