بھوجیانی رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں حدیث اس لئے پڑھاتے ہیں کہ تم بھی اسی مشن پر کام کرنا مدارس کو آباد کرنا ۔
سبحان اللہ آج راقم دیکھ رہا ہے کہ مال کی ہوس علماء میں بھی اس قدر آگئی ہے کہ کام کے بندے مدارس سے نکل کر سکول او رکالجز کوترجیح دے رہے ہیں صرف چار ٹکوں کی خاطر ۔
وہ شخص ذرہ سوچے کہ قرآن و حدیث کا پرچار اہم کام ہے یا چند ٹکوں کی خاطر اپنے آپ کو ضایع کر بیٹھنا اہم ہے ۔وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جو قرآن و حدیث کو چھوڑ کر سکول و کالجز کی طرف جا رہی ہے اور مدارس میں محنتی اور قابل اساتذہ دور دور تک نظر نہیں آتے،اور بہانہ پیش کرتے ہیں کہ کالجز میں بھی علماء کی ضرورت ہے اللہ کی قسم اس کا کون انکار کرتا ہے ،لیکن المیہ یہ ہے مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کو جب کوئی سکول وغیرہ کی جوب ملتی ہے فورا مدارس کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اس میں اہل مدارس کے لئے تنبیہ ہے کہ اپنے رویے میں اخلاص پیدا کریں اور اساتذہ کو تنخواہیں معقول دیں تاکہ مدارس قائم او ردائم رہیں ان میں قابل اساتذہ کا وجود ضروری ہے ۔
مولانا شہزاد اعوان حفظہ اللہ آف گوجرانوالہ مقیم سٹی قصور کی نصیحتیں :
موصوف بہت زیادہ خوبیوں کے مالک ہیں تجارت کے ساتھ ساتھ دینی کتب کو جمع کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا ان کا مشغلہ ہے ان کے نانا جی بہت بڑے عالم دین مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ سید نزیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے ۔
شہزاد اعوان صاحب نے کہاکہ میں نے بہت مطالعہ کیا لیکن جو لذت و تسکین اور نور قرآن مجید میں ملا وہ کسی کتاب سے نہ مل سکا ۔
بچپن میں میرے نانا جی نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ بیٹاتم ابرار اور صالحین کی صحبت اختیار کرو اس موقع پر اعوان صاحب نے گلستان سعدی سے ایک فارسی عبارت بھی پڑھی کہ ایک دوست نے اپنے دوست کو تحفہ بھیجا جس میں مٹی تھی اور مٹی خوشبو دار تھی دوست پریشان ہوا
|