وہ ہے جو اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کرتا ہے اور ناجائز مصارف میں خرچ کرتا ہے۔‘‘ (فقھائے مدینہ : ۶۸)
جس کی خوبیاں زیادہ ہوں اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنے چاہیے:
اما م سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہر شریف ہر عالم اور ہر صاحبِ فضل میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوتا ہے لیکن لوگوں میں جس کی خوبیاں عیوب سے زیادہ ہوں ، اس کے عیب کا ذکر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے فضائل کو دیکھ کر اس کے نقائص سے در گزر کرنا چاہئے۔‘‘
(فقہائے مدینہ : ۶۸)
علم پڑھنے کا فائدہ ۔
امام ابو بکر بن عبد الر حمٰن(فقیہ مدینہ)فرماتے ہیں : ’’علم تینوں میں سے ایک کے لیے ہے ۔علم خاندانی انسان کے نسب کو مزیّن کرتا ہے۔ دین دار کے دین کو آراستہ کرتا ہے ، یا پھر حکم ان سے میل ملاپ رکھنے کو فائدہ دیتا ہے ۔‘‘
(فقہائے مدینہ : ۹۹)
علم حدیث پڑھے بغیر عبادت صحیح نہیں ہوتی۔
عمر بن عبد العزیز نے اہلِ مدینہ کو خط لکھا :’’ جو شخص علم حاصل کیے بغیر عبادت کا طریقہ اختیار کرے گا وہ اصلاح سے زیادہ فساد کا سبب بنے گا ۔ جو اپنی کلام کو عمل کاا یک حصہ سمجھے گا وہ بے فائدہ چیزوں میں کلام کرنے سے باز رہے گا اور جو اپنے علم کو جھگڑے اور خصومت کا نشانہ بنائے گا اسے اپنی بات سے بار بار رجوع کرنا پڑے گا۔‘‘
(تذکرۃالحفاظ : ۱ /۲۶۸)
پر ہیز گاری سیکھو۔
امام بکر بن مضر مصری رحمہ اللہ کے پاس آتے تو اکثر ان سے فرماتے : ’’پر ہیز گاری سیکھو۔‘‘
(تذکرۃالحفاظ: ۱ / ۱۹۶)
|