میں کلاس میں حاضر ہونے کی ہر ممکنہ کوشش کرتا رہا ۔(والحمد للّٰہ علیٰ ذلک)
اگر با امر مجبوری کوئی ناغہ ہو بھی گیا تو طلبا کو سبق اپنے استاد محترم سے علیحدگی میں پڑھ لینا چاہیے ۔
طلبا کو قرا ٓن و حدیث کا علم کس لئے پڑھنا چاہئے ؟
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: لوگو ں کے لئے علم ِ حدیث کے سوا کوئی چیززیادہ نفع پہنچانے والی نہیں ہے ابو اسامہ کہتے ہیں میں نے امام سفیان سے سنا ہے کہ:’’ آپ فرماتے تھے کہ آج کل حدیث کا پڑھنا موت کی تیاری کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کو دل بہلاوے اور مشغلہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ :’’ میں کہتا ہوں با خدا امام سفیان نے صحیح کہا حدیث کا علم حاصل کرنا اور حدیث کو طلب کرنا ،حدیث سے ایک الگ چیز ہے کیونکہ طلب حدیث کا اطلاق کچھ زائد امور پر ہوتا ہے جو نفسِ حدیث سے مختلف ہوتے ہیں ، ان میں سے چند ایک یہ ہیں جن میں حدیث کا علم حاصل کرنے والے خصوصی دلچسپی لیتے ہیں ،عمدہ کلام لکھنا ،عالی سند کے حصول کی کوشش کرنا ، زیادہ سے زیادہ اساتذہ کا تلمذ چاہنا ، مختلف القاب سے ملقب ہونے پر خوش ہونا ، عمر طویل کی خواہش کرناتاکہ کثیر تعداد تک احادیث کی روایت کی جاسکے ،اور بعض امور میں منفرد رہنے کی محبت تو یہ تمام چیزیں نفسانی اغراض کا پتا دیتی ہیں انھیں اعمالِ ربانی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کے نتیجے میں اخلاص پیدا ہوتا ہے ۔ پس جب آثار و احادیث کا علم دنیوی اغراض میں گم ہوکر رہ جاتا ہو تو دوسرے علام مثلاََ منطق ، مناظرہ و حکمت قد ماء کے نتائج کیا کچھ نہ سامنے آئیں گے ۔حالانکہ یہ علوم ، حکمت و فلسفہ ،ایمان کو سلب کرنے والے اور دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے
|