کار شغل پر ملامت کرتے ہوئے حدیث کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دلاتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :’’ اے علما ہند ! اللہ تمہیں طویل زندگی دے اور اللہ کے فضل سے تمہاری ساری بیماریاں زائل ہوجائیں ۔ تم عقلی علوم میں کامیابی اور سعادت کی اُ مید رکھتے ہو ۔ مجھے ڈر ہے کہ تمہاری امید پوری نہ ہوسکے ۔۔۔کی تصانیف میں کچھ ہدایت نہیں اور نہ ابن سینا کی اشارات ، میں تمہاری شفا ہے۔۔۔مطالع سے ہدایت کا سورج طلوع نہیں ہوتا ۔ اس کے اوراق تمہارے لئے ظلمت کدہ ہیں ، ضیا نہیں ۔۔۔۔اصدار کی شرح تمہارے سینوں کو نہیں کھول سکتی بلکہ اس سے تو تمہارے سینے کی بیماریاں مزید بڑھتی ہیں ۔۔۔اور بازغۃ ، طلوع ہو تو اس میں کچھ نور نہیں بلکہ اس سے تمہاری ذہانت راتوں کی طرح مزید سیاہ ہوتی ہے ۔۔۔(او ر مسلم ، سلم العلوم)تمہیں پستی میں لے جاتی ہے اور اس کے ذریعے تم علوم کی بلندیوں کی طرف نہیں جاسکتے ۔۔۔تمہارے یہ علوم قیامت کے دن کچھ فائدہ نہ دیں گے ۔۔افسوس! تمہارا بدلہ کیا ہوگا ؟۔۔۔ تم کفر کے علوم کو اپنے لئے شریعت سمجھے ہوئے ہو ۔ گویا یونان کے فلاسفر تمہارے انبیاء ہیں ۔۔۔ تم بیمار ہو اور تمہاری بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے تم ۔شرعی علوم سے علاج کرو ۔ یہی تمہاری دوا ہے ۔۔۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور حسن احادیث عجیب شفا ہیں اور تمہارے لئے حقیقی دوا ہیں ۔‘‘
( الحرش علی ابیات علم میراث: ۲۷ قدیمی اسلامی کتب خانہ ملتان ، طبع اشاعت بحوالہ : محدث ۲۸۶۔مارچ ۲۰۰۵ : ۱۳۲)
سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی نصیحت:
ہمیں استاد محترم مولانا محمد حیات لاشاری سندھی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ جب ان کی آخری عمر تھی اور وہ بہت ضعیف ہوچکے تھے انھوں نے ممبر پر بیٹھ کر درس دیا اس درس میں انھوں اپنے شاگردوں کو یہ نصیحت کی :’’ میری آپ کو نصیحت ہے کہ قرآن و حدیث کو
|