اور چچا اگلے دن منہ اندھیرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے گئے۔ اور غروبِ آفتاب کے وقت لوٹے۔ یہ دونوں ان صاحب کو دیکھنے گئے تھے جو جزیرۂ عرب میں ظاہر ہوا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کا فرستادہ (نبی) ہے اور اس کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں ۔ وہ دونوں یہ دیکھنے گئے تھے کہ وہ سچے ہیں یا جھوٹے؟ اور ان کی صفات کیا ہیں ؟ اور ان کے اخلاق کیا ہیں ؟ (ان کا حلیہ اور علامات کیا ہیں ؟ کیا وہ وہی ہیں جنہیں وہ اپنی آسمانی کتابوں میں لکھا پاتے ہیں یا کوئی اور ہیں ؟)
سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’پس وہ دونوں تھکے ہارے گرتے پڑتے چلتے آرہے تھے، میں دونوں کی طرف لپکی۔ اللہ کی قسم! دونوں میں سے کسی نے بھی مارے غم کے میری طرف التفات نہ کیا۔ میں نے اپنے چچا ابو یاسر کو سنا، وہ میرے والد کو یہ کہہ رہے تھے کیا وہ وہی ہیں ؟ تو میرے والد کہنے لگے: ہاں ! اللہ کی قسم! (وہ وہی ہیں )۔ میرے چچا بولے! ’’کیا تم ان کی صفات وتعریف کو پہنچاتے ہو؟ ’’بولے! ہاں ! اللہ کی قسم!‘‘ اس پر میرے چچا نے پوچھا ’’تو پھرا تیر دل ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ (اور تیرے دل میں ان کے بارے میں کیا بات ہے؟) تو میرے والد بولے: اللہ کی قسم! سوائے عداوت کے اور کچھ نہیں ۔ اور مرتے دم تک عداوت کروں گا۔‘‘ [1]
افسوس! یہ ہیں یہود جنہوں نے سب کچھ جانتے اور پہچانتے ہوئے بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا نہ صرف انکار کیا بلکہ بدترین عداوت کے ساتھ نہایت کمینہ اور شرمناک سازشیں بھی کیں ۔ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے؟
﴿ أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ ﴾ (المومنون: ۶۹)
’’یا یہ اپنے پیغمبر کو جانتے مانتے نہیں اس لیے ان کو نہیں جانتے؟‘‘
بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم سامی ’’محمد‘‘ تورات میں صاف صاف لکھا ہے جس طرح انجیل میں ’’احمد‘‘ کا نام صاف صاف مذکور ہے۔
|