Maktaba Wahhabi

75 - 378
﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا﴾(الاحزاب: ۳۳) ’’اے (پیغمبر کے) اہل بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو بلا کر اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ آپ کی پشت کے پیچھے بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں پس تو ان کو بالکل پاک صاف کر دے‘‘ یہ سن کر سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں بھی تو ان کے ساتھ ہوں ۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم تو اہل بیت میں ہو ہی اور تم خیر پر بھی ہو۔‘‘ اس ارشاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے خیر پر ہونے کی شہادت دی۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا فضل و کمال، حسن وجمال، فہم و فراست اور دانش و بینش مسلم تھی۔ چنانچہ حدیبیہ کے دن آپ نے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مشورہ دیا تھا وہ آپ کے وفورِ علم، کمالِ فہم اور عمیق فراست و تدبر پر دلالت کرتا ہے۔ کتب سیرت و تاریخ میں یہ واقعہ مشہور اور معروف ہے۔ [1] جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیبیہ کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین بار سر منڈانے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا مگر فرطِ غم سے کسی نے بھی ایسا نہ کیا۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو خدمت رسالت میں عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! صحابہ اس صلح سے بے حد آزدہ خاطر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے کچھ نہ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جانور ذبح کیجیے اور سر منڈا لیجیے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ بس پھر کیا تھا کہ فورًا سب صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے جانور ذبح کر لیے اور سر منڈا لیے۔ غرض یہ پیچیدہ مسئلہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے اور مشورہ سے بخوبی حل ہوگیا۔
Flag Counter