Maktaba Wahhabi

55 - 378
مار ڈالنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب (ایک اکیلا) اللہ ہے؟‘‘ [1] ابو لہب نے اپنی بدبختیوں کی عجیب داستان خود اپنے ہاتھوں سے رقم کی جس پر رب تعالیٰ نے بھی سورۂ لہب نازل فرما کر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یہ ناہنجار بازاروں میں ، مجلسوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس جس کو بھی ایمان کی دعوت دیتے یہ پیچھے سے چلا چلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتا رہتا۔[2] خاوند کی یہ چستی تندھی دیکھ کر ابو لہب کی بیوی ام جمیل بھی پیچھے نہ رہی اور خاوند کے اکیلے جہنم میں جانے کو گوارا نہ کیا۔ اور دنیا کا ساتھ آخرت میں بھی نبھانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ چنانچہ ابو لہب نے گلیاں اور بازار سنبھال لیے جب کہ ام جمیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا رستہ سنبھال لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رستے میں کانٹے بچھاتی اور کورا کرکٹ پھینکتی۔ غرض تکلیفوں ، ایذاؤں اور اہانتوں اور مذاق اڑانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو قوم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین حق کی دعوت کے رستے میں برداشت کرتے تھے۔ مگر ان تمام ایذاؤں ، تکلیفوں ، اذیتوں ، پریشانیوں اور کلفتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیّدہ طاہر خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شفیق اور رحیم دل ثابت ہوئیں ۔ وہ ایک پختہ اور ٹھوس رائے بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جتنی بھی دلآزار اور ناگوار باتیں سن کر رنجیدہ و افسردہ اور آزردہ وگرفتہ ہو کر گھر پر تشریف لاتے تو سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح تسلی دیتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا غم غلط ہو جاتا۔ بلاشبہ سیّدہ صدیقہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا ایک عظیم خاتون اور نیک بیوی تھیں ۔ آپ نے کبھی جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب نہ دیا، جھگڑنے کا تو سوال ہی نہ تھا تو پھر کہاں کا ستانا، بے حد خدمت گزار، عاجز و متواضع، سراپا اطاعت تسلیم اور پیکر ادب وتعظیم تھیں ۔ ان خدماتِ جلیلہ و رفیعہ کا بدلا اسی دنیا میں ملنا از حد ضروری تھا۔ اور ملا، اور بڑی شان کے ساتھ ملا،
Flag Counter