ماضی میں کھو جاتا ہے اور اسے نبوت وبعثت کی دعوت کا سب سے پہلا زمانہ یاد آجاتا ہے جب اسلام کی سب سے پہلی کرن سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پھوٹی تھی۔ یہ آپ ہی تھیں جو سب سے پہلے اسلام لے آئیں ۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علی الاطلاق سب سے پہلے ایمان لانے والی آپ ہی تھیں ۔
علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ خلق خدا میں سے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی سیّدہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد بن اسد تھیں اور اس شرف میں کوئی دوسرا مرد یا عورت آپ پر سبقت نہ لے جاسکا۔‘‘ [1]
جب رب کائنات نے انسانیت کے پاس اپنی سب سے بڑی ہدایت کو توحیدی انوار کے پردوں میں لپیٹ کر بھیجا اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت عامہ اور رحمت دائمہ دے کر قیامت تک کے زمانوں کے لیے ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حق کا پیغام آن پہنچا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں رب کی عبادت میں ہمہ تن مشغول تھے۔ تو فرشتہ نے آگے بڑھ کر یہ کہا: ’’پڑھئیے!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا: ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اس شدت سے دبایا کہ میری مشقت کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس کے بعد چھوڑ دیا اور پھر دوبارہ یہ کہا، ’’پڑھئیے!‘‘ میں نے کہا: ’’میں پڑھ نہیں سکتا۔‘‘ اس پر فرشتہ نے مجھے دوبارہ پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری مشقت کی انتہا نہ رہی۔ اس کے بعد فرشتہ نے مجھے چھوڑ دیا اور (تیسری مرتبہ) کہا: ’’پڑھئیے!‘‘ میں نے (پھر وہی) کہا کہ: ’’میں پڑھ نہیں سکتا۔‘‘ اس پر فرشتے نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری مشقت کی انتہا نہ رہی۔‘‘ پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ:
﴿ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ
|