سے ام فروہ پر جا لگیں ۔
والدہ ماجد نے ام فروہ کے بارے میں جنابِ محمد باقر سے بات کی۔ محمد باقر نسب صدیقی اور شانِ صدیقیت پر بے حد خوش ہوئے۔ پھر شادی ہوگئی تو محمد باقر نے ام فروہ کو نیکی و صلاح اور علم و معرفت سے مزین و آراستہ پایا۔ ام فروہ علوم میں اپنے والد قاسم بن محمد کی وارث تھیں جو مدینہ کے سات فقہاء میں سے ایک شمار کیے جاتے تھے۔ جو سیّدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر کے ربیب تھے۔ قاسم نے سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آگوش تربیت میں پرورش پائی اور سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علوم کے سچے وارث بنے اور فقاہت کے درجہ پر فائز ہوئے۔
جنابِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی رگوں میں ہاشمی اور صدیقی خون گردش کر رہا تھا۔ اسی لیے ہم جعفر صادق کو یہ فرماتے سنتے ہیں کہ ’’ابوبکر نے مجھے دو دفعہ جنا ہے۔‘‘ [1] جناب جعفر صادق یہ بات سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر بے پناہ فخر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔ اس فخر کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کو وہ لوگ سخت برے لگتے تھے جو جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں برے الفاظ کہتے تھے۔ سالم بن ابی حفصہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے جعفر صادق نے فرمایا: ’’اے سالم! ابوبکر میرے جد ہیں کیا کوئی اپنے جد کو بھی گالی دیتا ہے۔؟ اگر مجھے ابوبکر و عمر سے محبت نہ ہو اور میں ان کے دشمنوں سے بری نہ ہوں تو مجھے روزِ قیامت شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب نہ ہو۔‘‘ [2]
یوں آپ نے جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت کو اپنے اندر جمع کیا جنہوں نے کسی بات میں بھی جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہ جھٹلایا تھا۔ اسی لیے آپ بھی الصادق کے لقب سے معروف ہوئے کہ کبھی جھوٹ نہ بولا تھا۔
|