وسعت علم کے ساتھ زہد و عبارت میں سے بھی وافر حصہ نصیب ہوا اور موحدین کے سردار اور عباد و زھاد کے امام کہلائے۔ روزانہ ڈیڑھ سور رکعات نماز پڑھتے تھے۔ [1]کبھی حسب ونسب پر بھروسہ نہ کیا بلکہ محنت و عبادت میں لگے رہتے تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے: ’’دنیا اس سے زیادہ کیا ہے کہ ایک سواری تھی جس پر میں نے سوار ہولیا اور ایک لباس تھا جو میں نے پہن لیا۔‘‘ [2]
حافظ ذہبی لکھتے: ’’آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہون نے علم و عمل، سیادت و شرافت اور وثاقت و رزانت کو جمع کیا بے شک آپ خلافت کے اہل تھے۔‘‘ [3]
آپ نے جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذریت میں سے ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شادی کی۔ عالم نزع میں فرماتے ہیں : ’’اے اللہ! میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہوں اگر میرے دل میں اس کے علاوہ کوئی بات ہو تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو۔‘‘ [4]
اگرچہ عراقیوں نے آپ کے خلاف خوب خبریں اڑائیں مگر آپ برابر جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور جنابِ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تعریف میں رطب اللسان رہے۔ چنانچہ آپ نے جابر سے کہا: ’’اے جابر! مجھے بعض عراقیوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ہم سے محبت کے دعویدار بھی ہیں اور جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بد زبانی بھی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے ہم نے کہا ہے۔ انہیں یہ بات پہنچا دو کہ میں ان سے بری ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! اگر میں والی بن گیا تو ان لوگوں کو قتل کرکے رب کا قرب حاصل کروں گا۔ اگر میں ان دونوں بزرگوں کے لیے استغفار نہ کروں تو مجھے شفاعت محمدی نصیب نہ ہو، بے شک رب کے دشمن ان
|