Maktaba Wahhabi

245 - 378
کی۔ جب کہ آپ سے علم حاصل کرنے والے کی تعداد شمار میں نہیں آتی۔ جن میں آپ کا بھتیجا جعفر صادق، شعبہ، فضیل بن مرزوق، مطلب بن زیاد، سعید بن خثیم، اور ابن ابی زناد وغیرہ بے شمار لوگ ہیں ۔ سیّدنا زید نے علم میں بے پناہ بلند مقام حاصل کیا۔ حتی کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھی آپ کے علوم کی تعریف کی، فرمایا: ’’میں نے زید کے زمانے میں زید سے بڑا فقیہ، حاضر جواب اور واضح قول والا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔‘‘ [1] بے شک ہمارے لیے عراق کے اس فقیہ کی اتنی بڑی شہادت کافی ہے۔ جو امام زید کے علمی مقام و مرتبہ کی ناقابل تردد دلیل ہے۔ ۹۶ھ میں آپ کے سر سے والد ماجد امام زین العابدین کا سایہ اٹھ گیا۔ اس وقت آپ محض چودہ برس کے تھے۔ والد ماجد کے بعد آپ کے بڑے بھائی امام محمد باقر نے آپ کی تربیت وکفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ آپ کا بے حد دھیان رکھتے تھے اور انہیں آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ محمد باقر آپ کو اہل بیت کا ایک ستون باور کرتے تھے۔ امام زید نے معاصر اہل بیت سے علم کا دامن بھرنے کے بعد دوسرے علمی حلقوں سے علم حاصل کرنا شروع کیا۔ مدینہ منورہ کے بعد عراق اور حجاز کے دیگر علاقوں کے نامور علماء کے پاس علم حاصل کرنے جا پہنچے اور ان کی علمی فکر کو اپنے سینے میں سمونے لگے۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں : ’’زید علم و جلالت کے مالک تھے۔ علم کے حصول میں سفر کیے۔ خروج کیا اور شہادت سے سرفراز ہوئے۔ [2] اہل بیت کی ایک مسلمہ علمی شخصیت اور آپ کے شاگرد جعفر صادق بن محمد باقر کی شہادت بھی ملاحظہ کیجیے،و ہ کہتے ہیں : ’’اللہ کی قسم! زید ہمارے سامنے کتاب اللہ کی قراء ت کرتے، ہمیں دین کا فقہ سکھلاتے اور ہمارے ساتھ صلہ رحمی کرتے تھے۔ اور ہم میں ان کے بعد ان جیسا کوئی نہیں ۔‘‘ [3]
Flag Counter