محمد کی والدہ خولہ حنفیہ کے جناب علی رضی اللہ عنہ تک پہنچنے کا قصہ یہ ہے کہ جب خلافت صدیقی کے بنی حنفیہ مرتد ہوگئے تھے تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ خولہ بھی قید ہوکر آئیں جن کو جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے باندی بنا لیا تھا۔ خولہ نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے محمد کو جنا۔ [1]
جناب عثمان رضی اللہ عنہ کی آزمائش کے دو سبائیوں کی فتنہ انگیزی میں محمد بن حنفیہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت میں پیش پیش تھے۔ ابن شبہ ’’تاریخ المدینہ‘‘ میں محمد بن حنفیہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’اگر عثمان مجھے صرار تک بھی چلنے کو کہیں تو میں ان کے امر کی اطاعت کروں ۔‘‘
صرار یہ عراق کے رستے میں مدینہ سے تین میل کی دوری پر ایک بستی کا نام ہے۔[2]
محمد بن حنفیہ جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو اتنے ہاتھ بلند کرکے کہ سفیدی نظر آنے لگی، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ بد دعا تین دفعہ کرتے سنا ہے: ’’اے اللہ! قاتلانِ عثمان پر لعنت کر، برو بحر میں اور میدانوں اور کوہساروں میں ۔‘‘ [3]
جنابِ علی رضی اللہ عنہ اپنے اس بیٹے کو گھمسان کے معرکوں میں آگے کرتے اور ان سے اپنی حفاظت کرتے۔ محمد زبردست جنگجو اور دلیر دل تھے۔ کسی نے ایک دن محمد سے یہ کہا کہ: ’’کیا بات ہے کہ آپ کے والد حسن اور حسین کی بجائے معرکوں میں آپ کو آگے کرتے ہیں ؟ جناب محمد نے کیا خوب جواب دیا کہ وہ دونوں میرے والد کی آنکھیں تھے اور میں ان کا دست وبازو تھا۔ چنانچہ وہ ہاتھ کے ذریعے اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتے تھے۔‘‘[4]
ابن مبرد اور ’’الکامل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک رومی حاکم نے آپ کو پیغام بھیجا کہ آپ سے پہلے کے حکام ہمارے ہاں کے حکام کے ساتھ مراسلت اور پیام رسانی رکھتے تھے اور ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کیا
|