Maktaba Wahhabi

189 - 378
’’اے مجرم! اپنی چھڑی اور داہنے ہاتھ کو اٹھا لے، تیرے مجرم ہونے کے لیے تیری یہی حرکت کافی ہے اور تو گناہ سے بچ۔ ایک رات میں سیّدنا حسین کے پاس گیا تھا تو میں نے تمہارے سردار کو (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو) دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منہ کو بوسہ دیا۔‘‘ عظیم لوگ اسی طرح میدان جہاد میں عزت کی موت مرتے ہیں اور شہید ہوکر سر خرو ہوتے ہیں جب کہ کمینے اور ظالم لوگ بستروں پر ذلت کی اور بزدلی کی موت مرتے ہیں ۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ بروز جمعہ عاشورہ کے دن ۶۱ ھ میں سر زمین عراق میں کربلاء کی مٹی میں ۵۸ سال کی عمر پاکر شہید ہوگئے۔ رضی اللّٰہ ورضوا عنہ وارضاہ اگر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا جانا بدترین جرم اور عظیم شر تھا تو خود جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کے اعتبار سے نری خبر اور آپ کا بے حد اکرام واعزاز بھی تھا۔ کہ رب تعالیٰ نے آپ کو شہادت سے نوازا۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیّدنا حسین اور ان کے برادرِ گرامی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ، دونوں بھائیوں نے اس زمانہ میں تربیت پائی جب اسلام بے حد مضبوط اور مستحکم ہو چکا تھا۔ تکوینی طور پر دونوں بھائی ہجرت، جہاد فی سبیل اللہ (مراد غزواتِ نبوی ہیں ) اور راہِ خدا میں اذیتوں پر صبر کرنے کی ان سعادتوں سے محروم رہے۔ جن کو دوسرے اہل بیت لیے ہوئے تھے۔ اس لیے رب تعالیٰ نے ان دونوں بھائیوں کی عزت و کرامت کو مکمل کرنے اور انہیں بلند ترین درجات پر فائز کرنے کے لیے، انہیں شہادت کی نعمت عظمی سے نوازا۔[1]
Flag Counter