Maktaba Wahhabi

80 - 259
باقی تمام مصائب کو صبر وتحمل کے ساتھ برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور﴿ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ﴾کہہ کر صبر کرنا چاہیے تھا، لیکن بدعتیوں نے حکمِ الٰہی کے خلاف طرح طرح کی بدعتیں پیدا کر دیں۔ اسی قدر نہیں بلکہ اس واقعہ سے بالکل بری الذمہ صحابہ رضی اللہ عنہم پر جھوٹ اور بہتان باندھنے کا بھی الزام لگا دیا۔ حالانکہ خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی کو مصیبت پیش آئے اوروہ ہر مرتبہ یاد آنے پر﴿ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ﴾ پڑھے، تو خواہ وہ مصیبت کتنی ہی پرانی ہوگئی ہو، اللہ تعالیٰ اسے ہر مرتبہ اتنا ہی ثواب بخشے گا جتنا مصیبت پیش آنے کے وقت بخش چکا ہے۔‘‘[1] غور کریں! حضرت حسین رضی اللہ عنہ خود یہ حدیث کس طرح روایت کررہے ہیں، پھر ان سے ان کی صاحبزادی روایت کرتی ہیں، جو بذات خود کربلا میں موجود تھیں! مصائب کے دنوں کو ماتم کے دن بنانا، مسلمانوں کا دین نہیں بلکہ جاہلیت کے دین سے زیادہ قریب ہے۔ پھر یہ بدعتیں ایجاد کرکے لوگوں نے اپنے آپ کو اس دن کے مشروع روزے کے ثواب سے بھی محروم کرلیا ہے۔ ایک طرف کچھ لوگوں نے یہ بدعتیں نکالی ہیں، دوسری طرف کچھ لوگوں نے ان کے مدّمقابل دوسری بدعتیں ایجاد کرلی ہیں مثلاً نہاتے دھوتے ہیں، سرمہ لگاتے ہیں، مصافحے کرتے ہیں اور اہل وعیال پر پہلے سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ان کاموں کو افضل سمجھتے ہیں۔ ان بدعتوں کے جواز میں متعدد حدیثیں بھی روایت کی جاتی ہیں مگر وہ تمام کی تمام موضوع ہیں۔
Flag Counter