عبادت ودعا کی سزاوار صرف وہی ایک ذات الٰہی ہے اور کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دعا سکھلائی کہ وہ کہیں: ﴿ إِیَّاکَ نَعْبُدُوَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ ﴾ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔‘‘[1] چنانچہ جس طرح بعض مخلوقات کا بعض چیزوں کو پیدا کرلینا توحید ربوبیّت کے منافی ہوسکتا ہے نہ اللہ کے خالق ہونے کے خلاف دلیل بن سکتا ہے اور نہ یہ بات ضروری ٹھہراتاہے کہ کسی مخلوق کی عبادت کی جائے یا اس سے دعا واستغاثہ کیا جائے، اسی طرح بعض شرکیہ افعال سے کبھی کوئی فائدہ حاصل ہوجانا، توحید الوہیت کے خلاف دلیل نہیں ہوسکتا، نہ اس بات کی تردید کرسکتا ہے کہ اللہ ہی دین خالص کا مستحق ہے اور نہ یہ بات ضروری ٹھہراتا ہے کہ وہ الفاظ استعمال کیے جائیں اور وہ افعال اختیار کیے جائیں جن میں شرک ہے اور جن کے نقصانات بندے کے لیے ان کے نفع سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ سراسر بھلائی صرف اسی جملے میں مضمر ہے۔ ﴿ إِیَّاکَ نَعْبُدُوَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنْ ﴾ یعنی ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اسی اکیلے سے مدد چاہتے ہیں۔ قرآن کی اکثر وبیشتر آیات اسی اصل الاصول کو ثابت کررہی ہیں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے بلا اجازت شفاعت تک کی جڑ کاٹ دی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ﴾ ’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟‘‘ [2] اور فرمایا: |
Book Name | فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے |
Writer | شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ |
Publisher | دار السلام |
Publish Year | 2007 |
Translator | مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی |
Volume | |
Number of Pages | 259 |
Introduction |