Maktaba Wahhabi

256 - 277
نے ایک گھنے درخت کے نیچے سایہ کے لیے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار ٹکا دی ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہماری آنکھ ہی لگی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا ۔ ہم حاضر ہوئے تو ایک بدو آپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ شخص میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا ۔ اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہو گیا ۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا ۔ مجھ سے کہنے لگا آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا ؟ میں نے کہا:’’ اللہ‘‘[وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ تلوار کو نیام میں رکھ کر بیٹھ گیا] اور دیکھ لو ؛یہ بیٹھا ہوا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔‘‘ [رواہ البخاری (ح:4046)] یہ آدمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان سے ہوتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے آپ تک پہنچا تھا۔ اورپھر تلوار سونت لی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ کو روک لیا؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے معاف فرمادیا۔‘‘ ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قوم کو بھی فرمادیا جنہوں نے آپ کو ہر طرح کی تکلیف دی؛ اور آپ کو آپ کی سرزمین سے نکالا۔مگر جب فتح مکہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرت اور غلبہ عطا کیا تو آپ نے معاف فرمادیا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے؛آپ فتح مکہ کے قصہ میں فرماتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر کعبہ کے پاس تشریف لائے اور دروازے کے دونوں کڑے پکڑ لیے؛ اور ارشاد فرمایا : ’’تم کیا کہتے ہو؟ اور تمہارا کیا خیال ہے؟[اب کیا ہونے والا ہے؟] تو وہ بولے: ’’آپ ہمارے بردبار اور مہربان بھتیجے اور چچا زاد بھائی ہیں۔‘‘ انہوں
Flag Counter