Maktaba Wahhabi

135 - 277
رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے۔اسی کے لیے حکمت بالغہ اورسر کچلنے والی حجت ہے۔‘‘ [تفسیر ابن کثیر 8؍320] دوم:… حضرت زید رضی اللہ عنہ منہ بولے بیٹے کا واقعہ : اسلام سے قبل عربوں کی عادت تھی کہ وہ منہ بولا بیٹا بنا لیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنی طرف منسوب کیا جاتا۔ اوریہ آدمی اس منہ بولے بیٹے کا باپ قرار پاتا۔ جب اسلام آیاتو اس نے اس عمل کو حرام قرار دیا۔ اور حکم دیا کہ کسی بھی انسان کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے۔ جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وحی نازل ہونے سے پہلے ایک شخص کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اس آدمی کا نام زید تھا؛ اور اسے زید بن محمد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اب دوبارہ اسے اس کے باپ کی طرف منسوب کرکے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پکارا جانے لگا۔ جب مدینہ میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح اس زید سے کر دیا۔ لیکن زید رضی اللہ عنہ کا ان کے ساتھ زیادہ دیر تک نبھانہ ہوسکا۔ کیونکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان پر قناعت نہیں تھی۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ آپ ان کی نسبت اعلی اور اشرف نسب سے تعلق رکھتی ہیں ۔حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ اور آسمانوں سے آپ کے پاس وحی آچکی تھی کہ عنقریب زید انہیں طلاق دیدیں گے اور آپ ان سے شادی کریں گے۔ جب بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ سے مشورہ لینے آتے تو آپ انہیں صبر کی تلقین کرتے؛ اور جو بات آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوچکی تھی ؛ وہ ان کو نہیں بتاتے تھے تاکہ آپ حرج نہ محسوس کریں۔ کیونکہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنے کو مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے عتاب کی آیات نازل فرمائیں۔ فرمان الٰہی ہے: {وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ
Flag Counter