Maktaba Wahhabi

197 - 277
رب ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا؛ تو یہاں پر اسی استدلال کے لیے زمین پر پیش آنے والی دو عظیم الشان مخلوقات کا ذکر کیا؛ لیکن اس کے لیے تکویر کا لفظ استعمال نہیں ہوا جیسے زمین کے لیے ہوا ہے۔ جیسے رات اور دن کا جب ذکر کیا گیا تو اس کے لیے ڈھانکنے ’’غشیٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ } [الاعراف 54] ’’وہی رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے۔‘‘ کیونکہ یہ آیت مخلوقات پر اللہ تعالیٰ کے وسعت تصرف پر دلالت کرتی ہے؛ اس کے شروع میں یوں فرمایا گیا ہے : {اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ} [الاعراف 54] ’’یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اپنے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ تو اس کی تصویر بطور خاص رات کے دن کو ڈھانکنے سے بیان کی گئی۔ پس یہ اس کی مخلوقات میں اعراض کی تبدیلی پر قدرت اورقوت کی دلیل ہے۔ اسی لیے سب سے بڑی پیش آنے والی چیز میں تبدیلی کے بیان پر اکتفا کیا گیا؛ اوروہ چیز ہے نور؛جس پر اندہیرا چھا جاتاہے۔ تاکہ یہ ان لوگوں کے لیے نشانی ہوجائے جو مسلمان بعد میں آئیں گے اورعلم ہئیت کا مطالعہ کریں گے تاکہ ان کے سامنے بھی یہ معجزہ ثابت ہو جائے۔‘‘ [التحریر والتنویر1؍3660] اس سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ یہ کلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ خالق ارض و سماء کی طرف سے نازل کردہ ہے[کسی کا ذاتی کلام نہیں]۔ نویں مثال: پہاڑ اور قرآن کابیان قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ پہاڑ زمین میں ’’اوتاد‘‘ ہیں۔[اوتاد؛ وتد کی جمع ہے]۔
Flag Counter