Maktaba Wahhabi

85 - 277
کا ہم کلام ہونا ؛ اورجب آپ کشتی بنا رہے تھے؛ اس وقت آپ کی قوم کے لوگوں کا آپ کا مذاق اڑانا اور جو کچھ گفتگو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے مابین ہوئی۔ پس بلاشک و شبہ یہ باتیں توسابقہ اہل کتاب کی کتابوں میں بھی بیان نہیں ہوئیں۔‘‘ [التحریر والتنویر ۱؍۲۱۱۷] اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن اس بات کوبار بار بیان کررہا ہے کہ یہ جو قصے بیان کیے جارہے ہیں؛ نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں کچھ جانتے تھے؛اور نہ ہی اہل مکہ میں سے کسی ایک کو ان کے بارے میں کچھ علم تھا۔اگر ان میں سے کسی ایک کو ان واقعات کے بارے میں پہلے سے کچھ علم ہوتا تو وہ فوری طور پر اس کاانکار کرتے ؛ جب انہوں نے ایسا نہیں کیا توپتہ چلا کہ یہ خبر صحیح ہے۔اوریہ قصے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم کیے ہیں۔ عہد نبوت میں قرآن میں حالات حاضرہ کی خبریں: مدینہ میں منافقین کے مابین کچھ امور پیش آیا کرتے تھے۔ اور ایسے ہی بعض اہل ایمان سے بھی کچھ غلطیاں واقع ہو جایا کرتی تھیں؛ جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تو مشاہدہ نہیں فرمایا کرتے تھے؛ مگر قرآن کریم نازل ہوتا اور ان کے بارے میں خبردیتا۔ اس کی کچھ مثالیں یہ ہیں: ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض غزوات میں مہاجرین اور انصار کے مابین اختلاف واقع ہو گیا۔ تو منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اپنی قوم کی ایک جماعت میں بیٹھ کر اس بارے میں گفتگو کی۔ تو ان میں سے ایک چھوٹے سے لڑکے نے اس منافق کی یہ گفتگونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔ اس کے بعد یہ منافق آیا اور اس نے قسم اٹھائی کہ اس نے یہ بات نہیں کہی۔ لیکن اس لڑکے کی بات کی تصدیق میں قرآن نازل ہوا۔ جس میں وہ بات ذکر کی گئی تھی جو اس منافق نے کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوا وَلِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰـکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا
Flag Counter