Maktaba Wahhabi

255 - 277
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہاری قوم قریش کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں؛ لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا ۔یہ وہ موقع تھا جب میں نے طائف کے سردار کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا ۔ لیکن اس نے اسلام کو قبول نہیں کیا اور میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا ۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا۔میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا : ’’ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکے؛ اور جو انہوں نے جواب دیا ہے وہ بھی سن لیا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔‘‘ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے سلام کیا اور کہا: ’’ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ جو چاہیں اس کا مجھے حکم فرمائیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں[جس سے وہ چکنا چور ہو جائیں ]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جوصرف اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘ [البخاری 3161؛ مسلم 4608] ۳۔ آپ کے قتل کا ارادہ کرنے والے کو معافی: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کے لیے گئے ۔ دوپہر کا وقت ہوا تو آپ ایک جنگل میں پہنچے جہاں کثرت کے ساتھ ببول کے درخت تھے ۔ آپ
Flag Counter