Maktaba Wahhabi

257 - 277
نے تین مرتبہ یہ جملہ کہا؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں ایسے ہی کہتا ہوں جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا: {لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ} [یوسف ۹۲] ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تمھیں بخشے اور وہ رحم گستروں سے زیادہ مہربان ہے۔‘‘ تو لوگ وہاں سے ویسے نکلے گویا ابھی وہ قبروں سے اٹھ کر آرہے ہوں؛ اور پھر وہ دین اسلام میں داخل ہوگئے۔‘‘ [رواہ فی السنن 18647] [مشہور ادیب]جاحظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پران عظیم الشان مواقف پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’اگر آپ کے اس وافر عفو و در گزر اور معاف کرنے کے واقعات میں سے اور کچھ بھی نہ ہوتا سوائے اس واقعہ کے جو فتح مکہ کے دن پیش آیا؛ تو صرف یہ واقعہ بھی کمال میں اکمل[اعلی ترین درجہ کا] واقعہ اور سب سے کھلی ہوئی دلیل ہے۔ کیونکہ جب آپ مکہ مکرمہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو ان ہی لوگوں نے آپ کے چچاؤں اور چچا زادوں اور آپ کے دوست و انصار کے ساتھ جنگیں لڑیں قتال کیا تھا۔ اورآپ کو شعب ابی طالب میں محصور رکھا۔ آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔ آپ کا جسم اطہر زخمی کیا؛ اور نفسیاتی عذاب و تکلیف سے دوچار کیا۔ آپ کو بیوقوف کہا؛ اور آپ کے خلاف سب نے مل کر مکرو فریب سے کام لیا۔ مگر جب آپ ان پر فاتحانہ داخل ہوئے تو یہ کوئی قابل تعریف لوگ نہ تھے۔جب آپ کو غلبہ نصیب ہوا تو یہ لوگ آپ کے سامنے حقیر بن کر کھڑے تھے۔ آپ نے کھڑے ہو کر ان میں خطبہ دیا؛ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اورآخر میں… فرمایا:
Flag Counter