Maktaba Wahhabi

164 - 277
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰـہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ} [المؤمنون ۱۴] ’’ پھرہم نے قطرے کوجماہوا خون بنایا، پھر جمے ہوئے خون کو بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھران ہڈیوں کو گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کر دیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘ قرآن کریم نے جنین کے چھ مراحل کا ذکر کیا ہے؛ جو کہ بذیل ہیں: پہلا مرحلہ: سلالہ :[پانی کا خلاصہ یا نچوڑ] قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ جنین کی تخلیق اس سارے پانی سے نہیں ہوتی جو مرد سے خارج ہوتا ہے؛ بلکہ یہ تخلیق اس پانی کے ایک جزء[یا حصہ ] سے عمل میں آتی ہے۔ اس حقیقت تک رسائی اس دور میں ہوئی ہے جب لیبارٹریاں اور دوسرے تحقیقی ذرائع وجود میں آئے ہیں۔ ماضی میں انسان یہ گمان کرتا تھا کہ انسان کی تخلیق مرد سے نکلنے والے سارے پانی سے ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے گمان کے برعکس ایک دوسری چیز بیان کی ۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اس کی تخلیق پانی کے جوہر سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْن } [السجدۃ 8] ’’…ایک حقیر پانی کے خلاصے سے ۔‘‘ یعنی زوجین سے خارج ہونے والے سارے پانی سے نہیں ؛بلکہ اس کے ایک انتہائی کم حصہ ؛ خلاصہ اور جوہر سے یہ تخلیق عمل میں آتی ہے۔ سلالہ بہت کم چیز کو کہا جاتا جسے کشید کرکے نکالا گیا ہو۔عرب ضرب المثل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ استلہ کما استل الشعرۃ من العجین‘‘
Flag Counter