Maktaba Wahhabi

91 - 156
مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ وضو کے لیے دیا جانے والا حکم مستحب پر محمول کیا جائے گا کیونکہ عمرو بن امیہ الضمری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے کاٹ رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تناول فرمایا تو نماز کی طرف بلایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری پھینک دی اور نماز پڑھی لیکن وضو نہیں کیا۔‘‘متفق علیہ۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھری کے ساتھ کاٹنا جائز ہے۔ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا بھی مستحب ہے: کیونکہ بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے وقت وضو کرتے تھے، تو جب فتح مکہ کا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا اور ایک ہی وضو کے ساتھ کئی نمازیں پڑھیں ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ نے وہ کام کیا ہے جو آپ کیا نہیں کرتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’’اے عمر !میں نے ارادتا ایسا کیا ہے۔‘‘اسے احمد اور مسلم وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ ابن عمرو بن عامر الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ انس بن مالک کہا کرتے تھے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے، کہتے ہیں کہ میں پوچھا کہ آپ لوگ کیا کیا کرتے تھے؟ کہنے لگے کہ ہم جب تک بے وضو نہ ہوتے تو ایک ہی وضو کے ساتھ کئی نمازیں ادا کرلیتے۔‘‘ اسے احمد اور بخاری نے بیان کیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو انھیں ہر نماز کے وقت وضو کا حکم دے دیتا۔ نیز ہر وضو کے ساتھ مسواک کا حکم دے دیتا۔‘‘اسے احمد نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ’’جس نے طہارت ہونے کے باوجود وضو کیا اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی۔‘‘اسے ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ یہ روایت ابن عمرو بن عامر سے نہیں بلکہ عمرو بن عامر سے مروی ہے۔ ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایات لی ہیں ۔ اور وضو کے بارے میں ہی
Flag Counter