Maktaba Wahhabi

97 - 156
ہوں کہ یہ موقف علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا بھی ہے، بیہقی (288؍1) اور طحاوی نے شرح المعانی (58؍1) میں ابو ظبیان سے روایت بیان کی ہے کہ’’ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ پھر پانی منگوایا اور وضو کیا اور اپنے جوتوں پر مسح کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوگئے اور اپنے جوتوں کو اتار دیا۔ پھر نماز پڑھی۔‘‘ بیہقی نے مزید الفاظ بیان کیے ہیں کہ ’’ پھر لوگوں کو نماز بھی پڑھائی‘‘۔ ان دونوں روایات کی سند صحیح ہے، شیخین کی شرط پر ہے۔ اور یہ شریعت اور اس نرم دین حنیف کہ جسے دے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، کی خوبیوں میں سے ہے۔ (ان کی بات پایہ تکمیل تک پہنچی)۔) اگرموزے یا جراب میں سوراخ ہو تو اس پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ معمول میں انھیں پہنا جاتا ہو۔ ثوری کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار کے موزے سوراخوں سے بچے ہوئے نہیں ہوتے تھے، سو اگر اس مسئلہ میں ممانعت ہوتی تو کوئی بات وارد ہوتی اور ان سے منقول ہوتی۔ اصول فقہ میں عرف کسے کہا جاتا ہے؟ اور کیا عرف سے دین کا کوئی مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے؟ موزوں وغیرہ پر مسح کی شرائط: موزے اور جو بھی اس طرح کی ڈھانپ لینے والی چیزیں ہیں ، ان پر مسح کے جواز کے لیے شرط ہے کہ انھیں وضو ہو تو پھر پہننا چاہیے۔ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہتے ہیں کہ ’’ ایک سفر میں ، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تو میں نے برتن سے پانی انڈیلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرے اور کہنیوں کو دھویا۔ اور اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کی غرض سے جھکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’انھیں چھوڑ دیجئے کیونکہ میں نے انھیں جب پہنا تھا تو پاؤں پاک تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح کرلیا۔‘‘ اس روایت کو احمد، بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے۔ اور حمیدی نے اپنے مسند میں مغیرہ بن شعبہ سے روایت بیان کی ہے کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے کوئی
Flag Counter