Maktaba Wahhabi

133 - 352
چھٹے دن (جمعہ) تمام خلق بن چکی تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ ’’ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ‘‘ یعنی پھر اللہ تعالیٰ عرش پر چڑھا اور بلند ہوا ،بالکل ایسے جیسے اس کی ذات کے لائق ہے، مؤلف رحمہ اللہ نے یہی بتانے کیلئے ان آیات کو پیش فرمایا ۔ ’’العرش‘‘ لغت میں بادشاہ کے تحت کو کہتے ہیں یہاں عرش سے مراد (تمام نصوص کو جمع کرکے) یہ ہے ایک تخت جس کے پائے ہیں اور جس کو ملائکہ نے اٹھا رکھا ہے اور جو پوری دنیا پر قبے کی شکل میں احاطہ کیئے ہوئے ہے ،گویا اللہ تعالیٰ کا عرش تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ { اللّٰه الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ } ترجمہ:’’اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کررکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو،پھر وہ عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے‘‘ (الرعد :۲) … شر ح … آسمانوں کو بلند کرنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں زمین سے اتنا اونچا بنایا کہ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہے ۔’’ بِغَیْرِ عَمَدٍ‘‘ ’’عمد‘‘ عماد کی جمع ہے بمعنی ستون ،یعنی آسمان کسی ستون کے بغیر اللہ رب العزت کی قدرت کے ساتھ قائم ہے۔ ’’ تَرَوْنَھَا‘‘ نفی عمد کی تاکید ہے اس کی تفسیر میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آسمانوں کے ستون تو ہیں لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے ،لیکن پہلی تفسیر درست ہے ۔’’ ثم استوی علی العرش‘‘ آیت کا یہ حصہ مؤلف رحمہ اللہ کا محلِ استدلال ہے ،جو اللہ رب العزت کی صفتِ’’استواء‘‘ ثابت کررہا ہے، بقیہ آیات کی تفسیر بھی اس آیت کی طرح ہے۔ ان تمام آیات سے یہ عقیدہ حاصل ہورہا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے عرش پر جیسا کہ اس کی عظمت و جلالت کے لائق ہے مستوی ہے۔ یہ تمام آیات ان لوگوں پر رد ہیں جو ’’استواء ‘‘کی
Flag Counter