بہانے کا ہے۔ اور چہرے کی حد پیشانی کے اوپر سے لے کر جبڑوں کے نیچے تک طولا اورایک کان کی لو سے لے کر دوسرے کان کی لو تک عرضا ہے۔
الفرض الثالث: ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔ کہنی اس جوڑ کو کہتے ہیں جو کندھے اور کلائی کے مابین ہوتا ہے۔ نیز کہنیاں اس حصے میں شامل ہیں جسے دھونا ضروری ہے۔ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ھدایت سے ماخوذ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھونا چھوڑا ہو۔
الفرض الرابع: سر کا مسح ہے۔ مسح کا معنی تری پہنچانا ہے۔ اور تری تب ہی پہنچائی جاسکتی ہے جب مسح کرنے والے عضو کو اس عضو کے ساتھ ملایا جائے جس پر مسح کیا جارہا ہے ۔ سو ہاتھ یا انگلی کو سر وغیرہ پر رکھ لینا مسح نہیں کہلاتا۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وسِکُمْ ‘‘ کا ظاہر سارے سر کے مسح کے وجوب کا متقاضی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ سر کے کچھ حصے پر مسح فرمانبرداری میں کفایت کرجائے گا۔ اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین طریقے منقول ہیں :
ا: تمام سر کا مسح کرنا: عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انھیں آگے کیا اور پیچھے لے گئے۔ آپ نے ابتداء سر کے الگے حصہ سے کی پھر انھیں اپنی گدی تک لے گئے پھر انھیں اس جگہ پر واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔‘‘ رواہ الجماعۃ۔
کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ بہادر صحابہ میں شمار ہوتے ہیں ۔ بدر اور احد میں مسلمانوں کے مقابلے میں آئے لیکن جب مشرکین احد میں واپس پلٹے تو آپ مسلمان ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر کی حیثیت میں حبشہ میں نجاشی کی طرف سفر کیا اور اسے اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوگیا۔ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تک حیات رہے۔ ان کے بیٹے جعفر ان سے وضو کی روایات بیان کرتے ہیں ۔
ب: صرف عمامہ پر مسح کرنا: عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہتے ہیں کہ ’’ میں نے
|