کیا آپ نے جرابوں پر مسح پر فریقین کے موقف کو دیکھ نوٹ کیا کہ یہ بہت بڑا اختلاف نہیں ہے۔ یونہی جب آپ علمی دنیا میں محو سفر رہیں گے تو ملاحظہ کریں گے کہ کئی ایک مسائل عوام میں ہوّا اور حد فاصل بنے ہوئے ہیں ، حالانکہ حقیقت میں وہ اتنا بڑا اختلاف نہیں ہوتا۔ علم حاصل کیجئے اور امت مسلمہ کے فرقوں میں پل کا کام کیجئے۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘ اس روایت کو احمد، طحاوی، ابن ماجہ اور ترمذی نے بیان کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔ (اور امام ابو داؤد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔) یہاں مقصود جرابوں پر مسح کا بیان ہے جبکہ جوتوں پر مسح ضمنا بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح جرابوں پر مسح جائز ہے اسی طرح ہر اس چیز پر مسح جائز ہے جو پاؤں کو لپیٹ لے مثلا لفائف وغیرہ ۔ لفائف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو پاؤں پر سردی یا گھس جانے کے اندیشہ یا پاؤں کے زخمی ہونے کے خوف وغیرہ سے لپیٹی جاتی ہیں ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’ اور درست بات یہ ہے کہ پٹیوں پر مسح کیا جاسکتا ہے ہے۔ بلکہ یہ مسح کرنے میں موزوں اور جرابوں سے زیادہ حق رکھتی ہیں کیونکہ عموما انھیں کسی ضرورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور انھیں اتارنے میں تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلا یا تو سردی لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، یا گھس کر تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یا زخم لگا ہو تو تکلیف ہوتی ہے۔ تو جب موزوں اور جرابوں پر مسح جائز ہے تو پٹیوں پر بالاولی جائز قرار پائے گا۔ اور جس شخص نے اس حوالے سے کسی چیز میں اجماع کا دعوی کیا تو اس کے پاس سرے سے اس کا علم نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ دس مشہور علماء سے اس کی ممانعت نقل کردے، چہ جائیکہ اجماع۔‘‘ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’ جس شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارکہ پر غور کیا اور قیاس کو اس کا حق دیا تو اس نے جان لیا کہ اس مسئلہ میں بہت آسانی دی گئی ہے۔
کیا جوتوں پر مسح کیا جاسکتا ہے؟
شیخ البانی رحمہ اللہ نے جوتوں پر مسح کے جواز کے بارے میں رقمطراز ہیں : ’’ میں کہتا
|