Maktaba Wahhabi

113 - 156
طرح دھوئے۔‘‘ رواہ البخاری ومسلم۔ ان حضرات نے اس مسئلہ میں وارد شدہ روایات کو ان کے ظاہری مفہوم میں لیا ہے اور ان روایات پر تنقید کی ہے جو اس کے متضاد وارد ہوئی ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں ؟کہ کچھ الفاظ ایسے ہیں کہ جن سے کسی کام کو لازمی طور پر کرنے کا علم ہوتا ہے، مثلا فرض، وجب، کتب، امر اور لفظ حق بھی اس کیٹگری میں شامل ہے۔ غسل کا وقت طلوع فجر سے جمعہ کی نماز تک رہتا ہے، البتہ مستحب یہ ہے کہ غسل جمعہ کے لیے جانے سے متصل پہلے کیا جائے۔ اور جب کوئی شخص غسل کرنے کے بعد بے وضو ہوجائے تو اسے وضو ہی کافی ہوگا۔ اثرم کہتے ہیں کہ ’’ میں نے امام احمد سے سنا ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے غسل کیا ہو لیکن بعد میں بے وضو ہوگیا ہو کیا اس کے لیے وضو کافی ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جی اور میں نے اس مسئلہ میں ابن ابزی کی حدیث سے زیادہ اچھی حدیث نہیں سنی ( ان کی بات مکمل ہوئی)۔‘‘ امام احمد کا اشارہ ابن ابی شیبہ میں عبد الرحمن بن ابزی عن ابیہ والی صحیح سند کے ساتھ مروی روایت کی طرف ہے، ابزی رضی اللہ عنہ کو صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، ’’(بیان کرتے ہیں کہ) وہ جمعہ کے دن غسل کرتے پھر بے وضو ہوجاتے تو وضو کرلیتے اور دوبارہ سے غسل نہ کرتے۔‘‘ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ مستحب پر مندوب، فضیلت، تطوع، نفل اور سنت وغیرہ کے الفاظ بھی بول دیئے جاتے ہیں ۔ غسل کا وقت نماز سے فراغت پر ختم ہوگا تو جس شخص نے نماز کے بعد غسل کیا تو اس کا یہ غسل جمعہ کے لیے شمار نہیں ہوگا اور ایسا کرنے والے کو جس کی تلقین کی گئی ہے اسے سرانجام دینے والا نہیں سمجھا جائے گا۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے جائے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔‘‘ اسے کئی محدثین نے بیان کیا ہے۔ مسلم میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’ تم میں سے جب کوئی جمعہ کے لیے آنے کا ارادہ کرے تو وہ غسل کرے۔‘‘ ابن عبد البر نے اس پر اجماع کا تذکرہ کیا ہے۔ عیدین کا غسل:
Flag Counter