مستحب ہونے کی تاکید ہے۔ کیونکہ بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک دفعہ جمعہ کے خطبہ کے لیے کھڑے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اول مہاجرین میں سے ایک شخص آیا ۔ اور وہ شخص عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کہا کہ یہ کون سا وقت ہے؟ کہنے لگے کہ میں مصروف ہوگیا تھا اس لیے گھر نہیں جاسکا اور اس دورانیہ میں میں نے اذان سن لی تو میں نے وضو سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وضو بھی جبکہ آپ کو علم بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل کی تلقین کیا کرتے تھے۔‘‘
امام شافعی کہتے ہیں کہ ’’ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے غسل کی وجہ سے نماز کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں غسل کے نکل جانے کو کہا،تو یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ان دونوں کو علم تھا کہ غسل کا حکم اختیاری ہے۔ نیز غسل کے مستحب ہونے پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مسلم میں مروی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا۔ پھر جمعہ کے لیے آیا اور غور سے سنا اور خاموش رہا تو اسے اس جمعہ سے اگلے جمعہ کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بلکہ مزید تین دن کے گناہ بھی معاف کردئیے جائیں گے۔‘‘
امام قرطبی اس حدیث سے غسل جمعہ کے مستحب کے استدلال کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ وضو اور دیگر امور کا اس انداز میں تذکرہ کہ اس پر ثواب مرتب ہورہا ہو یہ درستگی کا تقاضا کرتا ہے اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وضو کافی ہوجائے گا۔‘‘ حافظ ابن حجر تلخیص الحبیر میں کہتے ہیں کہ ’’ یہ روایت ان قوی ترین دلائل میں سے ہے جن سے جمعہ کے غسل کے فرض نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔ لیکن استحباب کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ غسل کو چھوڑنے پر نقصان کا اندیشہ نہ ہو، سو اگر غسل چھوڑنے پر لوگوں کو پسینے اور گندی بو وغیرہ کہ جس سے تنگی ہوتی ہے پہنچے تو غسل واجب قرار پائے گا اور اسے چھوڑنا حرام۔ کئی علماء جمعہ کے غسل کے ضروری ہونے کے قائل ہیں خواہ اسے چھوڑنے پر تنگی نہ بھی ہوتی ہو۔ ان کا استدلال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ہر سات دنوں یں ایک دن غسل کرے کہ جس میں وہ اپنے سر اور جسم کو اچھی
|