آیت کے نزول کے بعد اسلام لائے کہ جس سے پاؤں کے دھونے کے ضروری ہونے کا پتا چلتا ہے۔
اس لیے حدیث مبیِّن ہوئی۔ یعنی آیت میں پاؤں کو دھونے کا ضروری ہونا اس شخص کے لیے ہے، جس نے موزے نہیں پہنے۔ ہاں جس نے موزے پہنے ہوں تو اس پر پاؤں پر مسح کرنا فرض ہے۔ اس لیے سنت آیت کی تخصیص کرنے والی ہوگی۔
جرابوں پر مسح کی مشروعیت:
جرابوں پر مسح جائز ہے، یہ بات کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ’’ جرابوں پر مسح کرنا علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد، عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔ نیز یہ عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ (ان کی بات مکمل ہوئی۔)‘‘ اسی طرح عمار، بلال بن عبد اللہ بن ابی اوفی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ کی تہذیب السنن میں ابن منذر سے مروی ہے کہ ’’ امام احمد نے جرابوں پر مسح کی دلیل بیان کی ہے، اور یہ ان کے حق وانصاف پسند ہونے کی دلیل ہے۔ اس سلسلے میں ان کا اعتماد مذکورہ بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صریح قیاس ہے۔ کیونکہ جرابوں اور موزوں میں ایسا کوئی اثر انداز ہونے والا فرق موجود نہیں ہے کہ جس کی بناء پر حکم کو بدل دیا جائے۔ اور ان پر مسح کا قول جمہور اہل علم کا ہے۔(ان کی بات مکمل ہوئی)‘‘ اور ان اہل علم میں سے جنھوں نے جرابوں پر مسحوں کو جائز قرار دیا ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، عطاء، حسن، سعید بن مسیب رحمہم اللہ اجمعین ہیں ۔ ابو یوسف اور محمد نے کہا ہے کہ ’’ جب جرابیں موٹی ہوں کہ جن کے نیچے سے کچھ واضح نہ ہورہا ہو تو ان پر مسح جائز ہے۔ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ موٹی جراب پر بھی مسح کو جائز قرار نہ دیتے تھے لیکن پھر انھوں نے اپنی وفات سے تین یا سات دن قبل جواز کی طرف رجوع کرلیا۔ اور مرض الموت میں اپنی موٹی جرابوں پر مسح کیا اور اپنے عیادت مندوں سے کہا کہ میں نے آج وہ کام کیا ہے کہ جس سے منع کیا کرتا تھا۔‘‘
|