Maktaba Wahhabi

61 - 156
انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کی امت میں جو ابھی تک نہیں آیا اسے آپ کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’’آپ کا کیا خیال کہ ایک شخص کے پاس ایک ایسا گھوڑا ہو جس کی پیشانی اور ہاتھ پاؤں میں سفیدی ہو ، وہ ایسے گھوڑوں کے درمیان ہو کہ جو سخت سیاہ ہوں ، کیا وہ اپنے اس گھوڑے کو پہچان نہیں لے گا؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا کہ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ وہ آئیں گے تو ان کا چہرہ اورہاتھ پاؤں وضو کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے اور میں حوض پر ان کے آگے ہوں گا۔ توجہ کیجئے کہ میرے حوض سے کچھ لوگوں کو دھکیلا جائے گا جس طرح گمشدہ اونٹ کو دھکیلا جاتا ہے۔ میں انھیں بلاؤں گا تو جواب دیا جائے گا کہ انھوں نے آپ کے بعد دین کو بدل ڈالا۔ تو میں کہوں گا کہ دوری ہو، دوری ہو۔‘‘ رواہ مسلم۔ وضو کے فرائض وضو کے کچھ فرائض اور ارکان ہیں کہ جن سے اس کی حقیقت مترتب ہوتی ہے۔ جب ان میں سے کسی فرض پر عمل ہونے سے رہ جائے تو وضو ثابت نہیں ہوتا اور شریعت کی نظر میں اس کی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل ذیل میں ہے: الفرض الاول: نیت ہے۔ اور اس کی حقیقت اللہ کی رضا کے لیے اور اس کے حکم کو ماننے کے لیے کام کا ارادہ کرنا ہے۔ یہ صرف دل کا عمل ہے، اس میں زبان کو عمل دخل نہیں ہے۔ اور اس کا تلفظ غیر مشروع ہے۔ اس کے فرض ہونے کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔۔۔(لمبی حدیث ہے)‘‘ اسے کئی محدثین نے بیان کیا ہے۔ الفرض الثانی: ایک دفعہ چہرہ دھونا۔ یعنی چہرے پر پانی بہانا۔ کیونکہ ’’غسل‘‘ کا معنی
Flag Counter