رکعات نماز پڑھی۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے بھائی کا اسلام بہت اچھا رہا۔‘‘ اسے احمد نے بیان کیا ہے، جبکہ اس کی اصل بخاری و مسلم میں ہے۔
غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے پر غسل کے فرض ہونے میں حنفی اور شافعی فقہاء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ غسل کرنا مستحب ہے، ضروری نہیں ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو لاکھوں لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اگر غسل فرض ہوتا تو اس کے بارے میں تواتر کے ساتھ روایات منقول ہوتیں ۔ نیز وہ ثمامہ رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا روایت کو زیر غور الفاظ کو شاذ قرار دیتے ہیں ۔
فقہاء کے مابین یہ بات اتفاقی ہے کہ جب غیر مسلم شخص کے دائرہ اسلام میں داخل ہو تو غسل کم از کم اس کے حق میں مستحب ہے۔ اختلافی نقطہ غسل کا ضروری ہونا ہے۔ غیر مسلم جب اسلام قبول کرتا ہے توگویا اس کی زندگی کا نیا دور شروع ہورہا ہوتا ہے، تو غسل ایسے شخص کے لیے اس نئے دور میں داخل ہونے کی علامت بن جاتا ہے۔ روحانی طور پر وہ باقاعدہ اس چیز کو محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے ہی شخص کو اپنے بال بھی منڈھوانے کی تلقین فرمائی تھی۔
وہ امور جو جنبی پر حرام ہیں :
جنبی پر مندرجہ ذیل امور حرام ہیں :
نماز
طواف
اس کے دلائل، وضو جن امور کی وجہ سے واجب ہوتا ہے والی بحث میں گزر چکے ہیں ۔
مصحف کو چھونا اور اٹھانا:
مصحف کو چھونے اور اٹھانے کی حرمت ائمہ کے مابین اتفاقی ہے، اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ داؤد اور ابن حزم ظاہری نے جنبی کے لیے مصحف کو چھونے اور اسے اٹھانے کو جائز قرار دیا ہے۔ اور وہ صحیحین میں موجود اس روایت
|