السنی باسناد صحیح۔
لیکن امام نسائی نے اس دعا کو ’’ باب ما یقول بعد الفراغ من الوضوء‘‘ (باب: وہ وضو سے فارغ ہوکر کیا کہے گا؟)کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اور ابن سنی نے اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے ’’ باب ما یقول بین ظہرانی وضوئہ‘‘ (باب: وہ اپنے وضو کے درمیان میں کیا کہہ گا؟)۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہاں دونوں باتوں کا امکان ہے۔
تمام المنہ میں ہے کہ اگر یہ دعا ثابت ہوجائے تو پھر یہ وضو کی نہیں بلکہ نماز کی دعا قرار پائے گی کیونکہ مسند احمد کی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے:
((عَنْ اَبِی مُوسَی قَالَ: اَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِوَضُوئٍ فَتَوَضَّاَ وَصَلَّی وَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ اَصْلِحْ لِی دِینِی، وَوَسِّعْ عَلَیَّ فِی ذَاتِی، وَبَارِکْ لِی فِی رِزْقِی))
۱۶۔ وضو کے بعد دعا مانگنا:
کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آپ میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یہ دعا مانگے کہ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ) تو اس شخص کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، وہ جس میں چاہے داخل ہوجائے۔‘‘ رواہ مسلم۔ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ جس شخص نے وضو کیا پھر یہ الفاظ کہے کہ ’’ اے اللہ تو اپنے تعریف کے ساتھ پاک ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ الہ صرف اور صرف تو ہی ہے۔ میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں ۔‘‘ تو اس کا اجر ورق میں لکھ دیا جاتا ہے پر اس پر مہر لگا دی جاتا ہے تو اسے قیامت تک نہیں توڑا جاتا۔‘‘ رواہ الطبرانی فی الاوسط۔ اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں اور یہ الفاظ اسی کے ہیں ۔ اور اس روایت کو نسائی نے بھی بیان کیا ہے اور اس کے آخر میں کہا کہ ’’ اس پر خاتم سے مہر لگا دی جاتی ہے اور
|