Maktaba Wahhabi

120 - 156
ہیں کیونکہ انھیں حیا دین میں سمجھ حاصل کرنے میں مانع نہیں ہوتا۔‘‘ اس روایت کو ترمذی کے علاوہ کئی محدثین نے بیان کیا ہے۔ غسل کے متعلق چند مسائل حیض و جنابت ،جمعہ و عید یا پھر جنابت اور جمعہ اکٹھے ہوجائیں تو ایک غسل ہی کفایت کرجائے گا جب تمام کی نیت کی ہو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :’’ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘ اس مسئلہ میں ظاہری فقہاء اختلاف رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سے زائد غسل ایک ہی غسل سے کافی نہیں ہوسکتے بلکہ انھیں الگ الگ کیا جائے گا۔ اس پر شیخ البانی نے تمام المنہ میں بحث کی ہے، تفصیل وہاں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ یہاں مستدرک حاکم کی ایک روایت نقل کی جارہی ہے: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِی قَتَادَۃَ، قَالَ: دَخَلَ عَلَیَّ اَبِی وَاَنَا اَغْتَسِلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَقَالَ: غُسْلٌ مِنْ جَنَابَۃٍ اَوْ لِلْجُمُعَۃِ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ جَنَابَۃٍ. قَالَ: اَعِدْ غُسْلًا آخَرَ فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقُولُ: ((مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ کَانَ فِی طَہَارَۃٍ إِلَی الْجُمُعَۃِ الْاُخْرَی)) ’’عبد اللہ بن ابی قتادہ سے مروی ہے کہ میں جمعہ کے دن غسل کررہا تھا تو میرے پاس میرے ابو آئے تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا یہ غسل جنابت ہے یا جمعہ کے لیے غسل کررہے ہو؟ کہتے ہیں میں نے کہا کہ جنابت کا غسل ہے۔ تو کہنے لگے کہ ایک اور غسل کیجئے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے جمعہ کے دن غسل کیا وہ اگلے جمعہ تک طہارت میں رہے گا۔‘‘ کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ ابن العربی اور ابن عربی دو الگ الگ شخصیات تھے۔ اپنے
Flag Counter