Maktaba Wahhabi

140 - 156
جانے والے روزوں کی قضائی اس پر ضروری ہے، کیونکہ نماز کی قضائی مشقت کو دور کرنے کی غرض سے اس پر ضروری نہیں ہے کیونکہ نمازروزے کے برعکس بار بار آتی ہے۔ اس کی دلیل ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید اضحی یا عید فطر کے دن عید گاہ کی طرف گئے تو خواتین کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ’’ اے خواتین کی جماعت! صدقہ کیجئے کیونکہ میں نے آپ کو اہل نار کی کثیر تعداد میں دیکھا ہے ۔‘‘ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ آپ لعن طعن زیادہ کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں ۔ میں نے عقل اور دین کے لحاظ سے کم اشخاص کو آپ سے زیادہ عقل مند شخص کی عقل کو ختم کرنے والا نہیں دیکھا ۔‘‘ انھوں نے پوچھا کہ ہماری عقل اور دین میں کم کیا ہے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ جی بالکل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عقل میں کم کی وجہ سے ہے۔ اور کیا جب کوئی خاتون حالت حیض میں ہوتی ہے نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ یہ دین میں کم ہوئی۔‘‘ رواہ البخاری ومسلم۔ معاذہ کہتی ہیں کہ ’’ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور کہا کہ حائض کو کیا کہ روزہ کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ انھوں نے جواب دیا کہ یہ معاملہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہنچتا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتاجبکہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘ رواہ الجماعۃ۔ ۲۔ ازدواجی تعلق: یہ مسلمانوں کی اجماع کے ساتھ حرام ہے کیونکہ اس بارے میں کتاب و سنت میں واضح دلیل موجود ہے۔ اس لیے حائض اور نفساء پر پاک ہونے تک ازدواجی تعلق حرام ہے۔ کیونکہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ یہودی کی کوئی خاتون جب حالت حیض میں ہوتی تو وہ اس کے ساتھ کھاتے تھے اور نہ ہی اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتے تھے۔ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں
Flag Counter